لاہور: صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اعلان کیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر صوبے میں پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اس حوالے سے سمری وفاقی حکومت کو ارسال کر دی گئی ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی کو مذہب کے نام پر افراتفری پھیلانے یا عوامی زندگی مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور عوام نے حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ہڑتال کی کال کو مسترد کیا، جس پر وہ ان کی شکر گزار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر مذہبی جذبات کو استعمال کرکے ملک میں بدامنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ احتجاج غزہ میں جنگ بندی کے بعد دیا گیا، لہٰذا اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ “شہید ایس ایچ او کا کیا قصور تھا؟ کیا غزہ کا مسئلہ پولیس اہلکاروں کو شہید کر کے حل ہو جائے گا؟”
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب کابینہ نے متفقہ طور پر ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی ہے۔ اب لاؤڈ اسپیکر ایکٹ پر سختی سے عملدرآمد ہوگا، اور اشتعال انگیز تقاریر، جلاؤ گھیراؤ یا املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذہب کے نام پر کروڑوں روپے کی جائیدادیں بنانے اور عوام کو گمراہ کرنے والوں کے خلاف ریاست فیصلہ کن اقدام کرے گی۔ “خاتم النبیین ﷺ کے نام پر نفرت اور فساد پھیلانا ناقابلِ برداشت ہے۔”
صوبائی وزیر نے بتایا کہ حالیہ ہنگاموں میں 200 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے، 17 پولیس گاڑیوں کو نقصان پہنچا جبکہ 2 کو مکمل طور پر جلا دیا گیا۔ “ایک پولیس اہلکار کی گولی گلے میں لگی، وہ اب کبھی بول نہیں سکے گا — یہ ہے ان کے احتجاج کا اصل چہرہ۔”
انہوں نے واضح کیا کہ صوبے میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، غیر قانونی اسلحے کی ضبطی کے لیے آپریشن جاری ہے، اور بینک اکاؤنٹس سمیت سوشل میڈیا سرگرمیوں پر بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔








