لاہور: پنجاب حکومت نے صوبے میں جنگلی حیات کے تحفظ اور انسانی آبادیوں کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اہم اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے “پنجاب وائلڈ لائف ہیزرڈ کنٹرول رولز 2025” نافذ کر دیے گئے ہیں جبکہ جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین میں متعدد ترامیم بھی منظور کر لی گئی ہیں۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق ان نئے قواعد کا بنیادی مقصد انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم کی صورت میں فوری، منظم اور سائنسی بنیادوں پر کارروائی کو ممکن بنانا ہے۔ اگر کوئی جانور انسانی جان کے لیے خطرہ بن جائے یا زخمی ہو کر زندہ رہنے کے قابل نہ رہے تو چیف وائلڈ لائف رینجر رپورٹ اور سائنسی شواہد کی بنیاد پر کارروائی کا حکم دے سکے گا۔
ایسی صورتوں میں رینجر ماہرین سے مشورہ کر کے جانور کو قابو کرنے، منتقل کرنے یا ہٹانے کا فیصلہ کرے گا۔ ہر کارروائی سے قبل ویٹرنری ماہرین اور صوبائی وائلڈ لائف کمیٹی سے مشاورت لازمی قرار دی گئی ہے تاکہ تمام اقدامات سائنسی اصولوں کے مطابق ہوں۔
نئے قواعد میں یہ بھی شامل ہے کہ مخصوص علاقوں کو ’’وائلڈ لائف ہیزرڈ زون‘‘ قرار دیا جا سکے گا، جہاں جنگلی جانوروں کو کھلانے یا پالنے پر پابندی ہوگی۔ خطرناک یا نقصان دہ انواع کے بارے میں سائنسی بنیادوں پر فیصلے کیے جائیں گے جبکہ نایاب پرندوں اور جانوروں کے غیر قانونی شکار پر بھاری جرمانے مقرر کیے گئے ہیں۔
ترمیم شدہ قانون کے مطابق شاہین، باز، الو اور دیگر نایاب پرندوں کے غیر قانونی شکار پر ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد ہوگا۔ گیدڑ اور جنگلی سور جیسے جانوروں کے غیر قانونی شکار پر 25 ہزار روپے جرمانہ ہوگا، جبکہ شکار میں استعمال ہونے والی گاڑی، موٹر سائیکل یا اسلحے پر بھی لاکھوں روپے تک کے جرمانے مقرر کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ کتوں کی دوڑ کے مقابلوں میں زندہ خرگوشوں کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے اور صرف مشینی چارے کی اجازت ہوگی۔ شکار یا خرید و فروخت کے اجازت ناموں کے اجرا کے لیے ڈیجیٹل نظام بھی متعارف کرایا جا رہا ہے۔
نئے قانون کے تحت صوبے بھر میں خصوصی وائلڈ لائف پروٹیکشن سینٹرز قائم کیے جائیں گے جہاں اہلکاروں کو جدید آلات، ہتھیار اور وارنٹ کے بغیر گرفتاری کے اختیارات حاصل ہوں گے تاکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔








