آج کی تاریخ

پاکستان کی خیر ہو

پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشیں نئی نہیں ہیں، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر بار دشمن نے کوئی ناپاک چال چلی، اسے منہ کی کھانی پڑی۔ بلوچستان ایک بار پھر دشمن کی مکروہ سازشوں کا نشانہ بنا، مگر جس طرح پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے مستعدی سے کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملائے، وہ اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ناقابلِ تسخیر ہے اور دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ محض ایک ٹرین پر حملہ نہیں تھا، بلکہ یہ پاکستان کی سالمیت، قومی یکجہتی اور عوام کے حوصلے کو توڑنے کی گھناؤنی کوشش تھی۔ لیکن دشمن شاید یہ بھول چکا تھا کہ پاکستانی قوم نہ تو ڈرنے والی ہے اور نہ ہی کسی کے سامنے جھکنے والی۔ ہماری افواج، ایف سی، پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے بارہا ثابت کر چکے ہیں کہ وہ ملک کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا کہ اس حملے کے پیچھے بھارت کی خفیہ ایجنسی “را” کا ہاتھ ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ بھارت کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کیا جائے، فرقہ واریت اور لسانی فسادات کو ہوا دی جائے، اور ہمارے امن و استحکام کو تہس نہس کر دیا جائے، مگر اس کے تمام مذموم عزائم خاک میں مل چکے ہیں اور آئندہ بھی ملتے رہیں گے۔ جعفر ایکسپریس حملے میں دہشت گردوں نے انتہائی بزدلانہ طریقے سے نہتے مسافروں کو یرغمال بنایا، مگر جس جرات اور بہادری کے ساتھ پاکستان کے ضرار کمانڈوز نے آپریشن کرکے یرغمالیوں کو بحفاظت نکالا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ دشمن نے دہشت گردوں کو جدید اسلحے اور تمام تر سہولتیں فراہم کیں، مگر وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر وہ ایک ناقابلِ تسخیر جذبے سے سرشار ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں 1965 کی جنگ سے لے کر آج تک ہر میدان میں سرخرو کرتا آیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں بھارت نے اپنے پروردہ دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہو۔ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کو بھارتی ایما پر پاکستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف نفرت اور دہشت گردی کا بازار گرم رکھ کر ہمارے حوصلے پست کر سکتا ہے، لیکن وہ شاید یہ بھول گیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ قربانیوں اور لازوال عزم کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ دشمن جو بھی چال چلے، جو بھی سازش رچائے، پاکستان ہمیشہ اپنے دشمنوں کے منصوبے ناکام بناتا آیا ہے اور آئندہ بھی بناتا رہے گا۔ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے 2024 میں 59 ہزار سے زائد آپریشن کیے، جبکہ 2025 میں اب تک 11 ہزار سے زائد آپریشن ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کی تھی، وہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی عبرتناک انجام تک پہنچانا ہوگا، کیونکہ جب تک ان کی پشت پناہی ختم نہیں ہوگی، دشمن نئے چہرے اور نئی شکل میں وار کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بالکل درست کہا کہ بلوچستان میں جو دہشت گرد گروہ سرگرم ہیں، وہ کسی بھی طرح ناراض بلوچ نہیں بلکہ دشمن کے آلہ کار ہیں۔ ان کا مقصد نہ تو بلوچ عوام کے حقوق کی جنگ لڑنا ہے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی مظلومیت کا سامنا ہے، بلکہ یہ وہ کرائے کے قاتل ہیں جنہیں بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو پناہ دی جا رہی ہے اور وہاں سے بھیجے گئے دہشت گرد پاکستان میں خونریزی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ دشمن کب تک بلوچستان اور پاکستان کے دوسرے حصوں میں خون بہانے کے خواب دیکھتا رہے گا؟ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان دشمنوں کو ایک واضح پیغام دے کہ ہم نہ صرف اپنے گھروں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں بلکہ اگر دشمن باز نہ آیا تو ہم اس کا تعاقب کرکے اسے اس کے بل میں گھس کر ماریں گے۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد دشمن نے ایک اور چال چلی اور سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے جعلی ویڈیوز بنا کر پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی۔ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح اس موقع کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی سازش کی، مگر حقیقت وہی ہے جو پاکستانی عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں: دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچا دیا گیا، یرغمالیوں کو بحفاظت نکالا گیا، اور بھارت کو ایک بار پھر عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ دشمن چاہے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرے، عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف منفی مہم چلائے یا زمینی دہشت گردی کی کوشش کرے، پاکستان ہر محاذ پر اسے شکست دے گا۔ پاکستانی عوام کو بھی اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ محض دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں، بلکہ ہماری بقا اور سلامتی کی جنگ ہے۔ یہ وقت ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کرے، کیونکہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے اندرونی دشمنوں کا مکمل طور پر صفایا نہ کر دے۔ ہمیں نیشنل ایکشن پلان پر فوری اور مکمل عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا، سرحدوں کو مزید محفوظ بنانا ہوگا، دہشت گردوں کے مالی وسائل کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا، اور بین الاقوامی سطح پر بھارت اور افغانستان کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ دشمن کی سازشیں جتنی بھی خطرناک کیوں نہ ہوں، پاکستان کی بہادر افواج اور عوام کا عزم ان سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ ہم نے پہلے بھی ملک دشمن عناصر کو نیست و نابود کیا ہے اور آئندہ بھی کسی دشمن کو یہ موقع نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے امن کو تباہ کر سکے۔ یہ جنگ ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے، اور ہم اس جنگ میں کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بھارت اور اس کے پالتو دہشت گرد سن لیں، پاکستان ایک مضبوط قلعہ ہے، اور جو بھی اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا، وہ خود اپنی بقا کے لیے ترستا رہے گا۔ ہمیں نہ صرف اندرونی دشمنوں پر نظر رکھنی ہے بلکہ بیرونی محاذ پر بھی چوکنا رہنا ہوگا۔ بھارت کی جانب سے ہونے والی ان سازشوں کا توڑ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اندرونی استحکام پر توجہ دیں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دشمن صرف بندوق کے ذریعے ہی حملہ نہیں کرتا، بلکہ معیشت، سوشل میڈیا، سفارتی محاذ اور نظریاتی حملے بھی دشمن کی حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں۔ بھارت کی یہ مستقل کوشش ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے، ملک میں بدامنی اور افراتفری پیدا کرے، اور عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچائے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے ہر بار دشمن کے پروپیگنڈے کو ناکام بنایا ہے، ہر بار دشمن کی چالوں کو بے نقاب کیا ہے، اور ہر بار اپنی مضبوطی اور وحدت کا عملی ثبوت دیا ہے۔ اس لیے ہمیں نہ صرف اپنی سیکیورٹی فورسز پر فخر کرنا چاہیے بلکہ بطور قوم بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں دشمن کے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے بجائے سچائی کو سمجھنا ہوگا، اپنے اتحاد کو برقرار رکھنا ہوگا، اور اس عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا کہ پاکستان کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا کر رہیں گے۔ دشمن کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ پاکستان کی بنیادیں اتنی مضبوط ہیں کہ کوئی بھی قوت اسے کمزور نہیں کر سکتی۔ جب تک پاکستان کا ہر شہری اپنی فوج، اپنے اداروں اور اپنی قوم کے ساتھ کھڑا ہے، کوئی بھی دشمن ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ وقت کمزوری دکھانے کا نہیں، بلکہ بھرپور جوابی کارروائی کا ہے، تاکہ دشمن کو ہمیشہ کے لیے سبق سکھایا جا سکے۔

معیشت کا فریب اور عوام کی حقیقت

پاکستان میں ایک بار پھر وہی پرانی کہانی دہرائی جا رہی ہے—معاشی ترقی کے جھوٹے دعوے، بلند و بانگ وعدے اور خوشحالی کے سراب۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران اور بیوروکریسی کے اہلکار معیشت کے استحکام اور ترقی کے گیت گا رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں مایوسی، بے بسی اور بدحالی کے سائے مزید گہرے ہو رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پاکستان کی معیشت میں جی ڈی پی کی نمو کا نعرہ لگایا گیا، تو اس کا حقیقی فائدہ صرف چند مخصوص طبقات کو ہوا، جبکہ عام عوام کے لیے زندگی مزید دشوار ہو گئی۔
گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کی معیشت میں کئی بار تیز رفتار ترقی دیکھی گئی۔ جی ڈی پی کی شرح نمو چھ سے آٹھ فیصد تک جا پہنچی، قومی آمدنی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، اور حکومت کے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ مگر کیا یہ ترقی عام شہری کے معیارِ زندگی کو بہتر بنا سکی؟ اگر ترقی کے یہ دعوے حقیقی ہوتے تو پھر پاکستان کے شہری جوق در جوق ملک چھوڑنے پر مجبور کیوں ہوتے؟ آخر کیوں متوسط طبقے کے لوگ، جو ماضی میں ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے، اب بے یقینی اور خوف کے عالم میں جی رہے ہیں؟
یہ وقت ہے کہ ہم صرف جی ڈی پی اور دیگر معاشی اشاریوں کے گورکھ دھندے سے نکل کر ان مسائل پر غور کریں جو حقیقی طور پر عوام کی زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں جائیداد کے حقوق تقریباً ناپید ہو چکے ہیں، انصاف کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے، اور عام آدمی کو تحفظ فراہم کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ بڑے شہروں میں آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے، جبکہ آزادیٔ اظہار اور مذہبی رواداری کا حال یہ ہے کہ لوگ معمولی الزامات پر قتل کر دیے جاتے ہیں اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر بنیادی سہولتوں کی حالت بھی ابتر ہو چکی ہے۔ ملک میں سینکڑوں یونیورسٹیاں قائم ہونے کے باوجود کوئی بھی عالمی سطح پر اپنا مقام نہیں بنا سکی، اور تعلیمی ادارے علم و تحقیق کے بجائے سیاست اور سازشوں کے مراکز بن چکے ہیں۔ عوام کو بنیادی سہولتیں جیسے پانی، بجلی، گیس، نکاسیٔ آب، اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے میں ریاست مسلسل ناکام رہی ہے۔
امن و امان کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ ملک بھر میں جرائم کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے، اور دارالحکومت اسلام آباد تک محفوظ نہیں رہا۔ ایک ایسا شہر جہاں ہزاروں کیمروں، درجنوں سیکیورٹی چیک پوسٹوں اور جدید پولیسنگ سسٹم کے باوجود سال 2024 میں 900 سے زائد اغوا کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جاری بغاوتیں اور سیکیورٹی چیلنجز تو الگ کہانی ہیں، جہاں ریاست کی رٹ کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
حکومت نے گزشتہ برس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت بینکوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی معیار کے مطابق اصلاحات متعارف کرانے پر اتفاق ہوا تھا۔ دو نجی بینکوں کی دوبارہ سرمایہ کاری کا پہلا مرحلہ مکمل کیا گیا، جبکہ چھ مائیکروفنانس بینکوں کو درپیش سرمایہ کاری کے بحران کو حل کرنے کے لیے بھی اقدامات جاری ہیں۔ اس کے علاوہ، جمع شدہ رقوم کے تحفظ کی اسکیم (ڈیپازٹ انشورنس اسکیم) کو ان چھوٹے بینکوں تک اس وقت تک توسیع نہیں دی جائے گی جب تک کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہ ہو جائیں۔ بظاہر، یہ تمام اقدامات پاکستان کے مالیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں، مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے مالیاتی ادارے طویل عرصے سے عالمی اداروں کی ہدایات کے تابع ہیں، اور حکومت کی مالیاتی خودمختاری نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستانی حکام نے 2019 میں آئی ایم ایف سے اپنی سودے بازی کی صلاحیت اس وقت کھو دی تھی جب فنڈ نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا تھا، جب تک کہ حکومت پیشگی شرائط پوری نہ کر لے۔ ماضی میں، جب بھی کسی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کیا، وہ یا تو اس پروگرام کو مکمل کرنے سے پہلے چھوڑ دیتی تھی، یا پھر معاہدے کے تحت کیے گئے اصلاحاتی اقدامات کو سیاسی وجوہات کی بنا پر واپس لے لیتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج، 21 آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے کے باوجود، پاکستان کی معیشت اب بھی بدحالی کا شکار ہے۔
کچھ ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ پاکستان کی معاشی تباہی کی اصل وجہ ملک کی روایتی بوم اینڈ بسٹ
(Boom and Bust)
سائیکل ہے، جہاں معیشت کبھی تیزی سے بڑھتی ہے اور کبھی یکدم زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ جب معیشت ترقی کرتی ہے تو خام مال کی درآمدات بڑھتی ہیں، جس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ناقابل برداشت حد تک پہنچ جاتا ہے، اور پھر حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف کی طرف سے سخت مالیاتی اقدامات مسلط کیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے معیشت سکڑ جاتی ہے، اور ترقی کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ بار بار دہرایا جاتا ہے، اور کسی بھی حکومت نے اس بنیادی مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
دوسری طرف، کچھ ماہرین کے مطابق، پاکستان کے معاشی مسائل کی جڑ آئی ایم ایف کے پروگراموں کی ناقص ڈیزائننگ میں بھی ہے۔ جب سے پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے معاہدے کیے ہیں، ان میں نمایاں بہتری نہیں آئی۔ ان معاہدوں کے ذریعے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مالیاتی سختی نافذ کی گئی ہے، لیکن معیشت کو خودمختار اور پائیدار بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں وزارت خزانہ کو ہمیشہ تکنوکریٹس کے حوالے کیا گیا ہے، جنہوں نے ملک میں حقیقی مالیاتی اصلاحات کے بجائے صرف روایتی طریقوں پر انحصار کیا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں ہمیشہ کسی بین الاقوامی مالیاتی ماہر کو وزیر خزانہ کے طور پر تعینات کرتی رہی ہیں، جو صرف قلیل مدتی پالیسیوں پر عمل کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) وہ واحد جماعت تھی جس نے ایک سیاسی شخصیت، اسحاق ڈار، کو یہ قلمدان سونپا، مگر ان کی پالیسیاں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ اختلافات کے باعث زیادہ دیر نہیں چل سکیں۔ اگر پاکستان کو معاشی خودمختاری کی طرف لے جانا ہے، تو ہمیں ایک ایسا وزیر خزانہ درکار ہے جس کی تعلیمی بنیاد مضبوط ہو، جو مقامی معیشت کو بہتر طور پر سمجھتا ہو، اور جو بین الاقوامی دباؤ کے بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دے۔
موڈیز کی رپورٹ بلاشبہ ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن ہمیں اس پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت حکومت توانائی کے گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے ایک کھرب روپے سے زیادہ قرض لینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ جبکہ پاکستانی بینک پہلے ہی حکومتی سیکیورٹیز میں حد سے زیادہ سرمایہ لگا چکے ہیں، اور پاور سیکٹر میں غیرمعمولی مالیاتی انکشافات ہو چکے ہیں، اس لیے اس اقدام کے نتیجے میں مزید مالیاتی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اگر آئی ایم ایف نے اس فیصلے پر اعتراض کر دیا، تو پاکستان کو ایک اور مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کا نقصان براہ راست عوام کو ہوگا۔
یہ وقت ہے کہ حکومت معاشی اصلاحات پر سنجیدگی سے عمل کرے، بجائے اس کے کہ وہ عارضی مالیاتی بہتری کو کامیابی قرار دے۔ پاکستان کو ایسے پالیسی سازوں کی ضرورت ہے جو بین الاقوامی اداروں کی مرضی کے مطابق نہیں، بلکہ ملک کی حقیقی ضروریات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں۔ اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا، تو مستقبل میں معیشت مزید غیر مستحکم ہو جائے گی، اور عوام پر مہنگائی، بے روزگاری اور مالی مشکلات کے بوجھ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ موڈیز کی رپورٹ کو ایک مثبت پیش رفت سمجھنا درست ہے، مگر اس کو اصل کامیابی سمجھنا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اصل کامیابی وہ ہوگی جب پاکستان اپنی معیشت کو بیرونی قرضوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے نکال کر حقیقی طور پر خودمختار بنا سکے۔
سوال یہ ہے کہ اس تمام تر بگاڑ کے باوجود، حکمران عوام کو خوشحالی اور ترقی کے خواب کیوں دکھا رہے ہیں؟ اس کا جواب سادہ ہے—معاشی ترقی کے نام پر ملک میں جو پیسہ آ رہا ہے، وہ مخصوص حلقوں میں گردش کر رہا ہے، جبکہ عام شہری کے لیے کچھ نہیں بدلا۔ جب تک معیشت کو چند طاقتور حلقوں کے مفادات کے بجائے عام شہری کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، تب تک ترقی کے تمام تر دعوے بے معنی رہیں گے۔
حقیقی ترقی وہ ہوتی ہے جس کا اثر عوام کی زندگیوں پر نظر آئے، نہ کہ صرف بلند عمارتوں، اوور پاسز، اور سڑکوں کی تعمیر میں جھلکے۔ اسلام آباد میں تیزی سے بڑھتی ہوئی کنکریٹ کی عمارتیں بظاہر ترقی کی علامت دکھائی دیتی ہیں، مگر حقیقت میں یہ ماحولیاتی تباہی کو دعوت دے رہی ہیں، جیسا کہ پہلے ہی لاہور کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ معیشت کو ٹھیک کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ معیار کو مقدار پر فوقیت دی جائے، اور ترقی کو محض انفراسٹرکچر کی تعمیر سے جوڑنے کے بجائے عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دی جائے۔
پاکستان میں معاشی ترقی کا مطلب صرف زیادہ سیمنٹ، سریا اور اینٹوں کی کھپت نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ایسی پالیسیاں اپنانا ہوں گی جو عام شہری کو تحفظ فراہم کریں، اسے باوقار روزگار مہیا کریں، اور اس کی زندگی میں بہتری لائیں۔ چاہے جی ڈی پی کی شرح نمو 10 فیصد ہو جائے، اگر عوام خود کو غیرمحفوظ، بے اختیار، اور بے بس محسوس کرتے ہیں، تو ایسی ترقی کسی کام کی نہیں۔
یہ حقیقت تو عام شہری بھی سمجھ چکا ہے، مگر افسوس کہ حکمران طبقہ ابھی تک حقیقت سے نظریں چُرا رہا ہے۔ کراچی میں چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ کے دوران اسٹیڈیم میں خالی نشستوں کے حوالے سے ایک شہری کا تبصرہ شاید اس صورتحال کی بہترین عکاسی کرتا ہے: “لوگوں کو شاید اندازہ نہیں کہ کراچی کس قدر بدحال ہو چکا ہے۔ اس شہر کے باسیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ سڑکوں پر ہر طرف رکاوٹیں، ناقص ٹریفک نظام، بڑھتے ہوئے جرائم، اور مجموعی طور پر یہ احساس کہ شہر کو فراموش کر دیا گیا ہے—یہ سب کچھ کسی بھی تفریحی موقع کو غیر اہم بنا دیتا ہے۔”
اگر ایک عام شہری اس تلخ حقیقت کو سمجھ سکتا ہے، تو کیا اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے افراد بھی اس کا ادراک کریں گے؟ یا پھر وہی روایتی حربے، وہی جھوٹے دعوے، اور وہی بے نتیجہ وعدے چلتے رہیں گے؟ پاکستان کے عوام اب صرف ترقی کے جھوٹے نعروں سے بہلنے والے نہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ معیشت کو چند مفاد پرست طبقات کے بجائے عام شہری کے فائدے کے لیے چلایا جائے، ورنہ یہ نام نہاد ترقی صرف ایک اور سراب ثابت ہوگی، جس کا خمیازہ ہمیشہ کی طرح عام عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں