اقوام متحدہ میں پاکستان نے افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے محفوظ ٹھکانوں کا معاملہ بھرپور انداز میں اٹھا دیا ہے اور اس حوالے سے دراندازی اور حملوں کے شواہد سلامتی کونسل کے سامنے رکھ دیے گئے۔
عرب نیوز کے مطابق، پاکستان نے اپنے مؤقف میں کہا کہ افغانستان میں 60 سے زائد عسکریت پسند کیمپ موجود ہیں جو خطے اور پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ پاکستان نے افغان طالبان کو سرحد پار حملوں میں ملوث قرار دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گرد کیمپ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں اور معصوم شہریوں پر حملوں کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے ثبوت فراہم کیے ہیں کہ یہ گروہ مشترکہ تربیتی مشقوں، غیر قانونی اسلحہ کی تجارت اور منظم حملوں میں تعاون کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا کہ داعش، القاعدہ، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسی تنظیمیں افغان سرزمین سے سرگرم ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان اور چین نے مل کر 1267 کمیٹی کو بی ایل اے اور مجید بریگیڈ پر پابندی لگانے کی درخواست دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکام کو انسداد دہشت گردی سے متعلق اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔ ٹی ٹی پی تقریباً 6 ہزار جنگجوؤں کے ساتھ افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروہ ہے جبکہ پاکستان نے کئی بار ان کی دراندازی کی کوششیں ناکام بنائی ہیں۔
عاصم افتخار نے زور دیا کہ پاکستان خطے اور دنیا کے مفاد میں ایک پرامن اور مستحکم افغانستان چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے ہمیشہ پُرعزم رہے گا۔








