ملتان (وقائع نگار) بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری کا ایک سال مکمل، اساتذہ نے بدترین قرار دے دیابہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان جو کہ جنوبی پنجاب کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اور اپنے پچاس سال مکمل کر چکی ہے۔ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری نے 23 ستمبر 2024 کو رات گئے اس جامعہ کا چارج سنبھالا لیکن بد قسمتی سے پہلے سال کا اختتام 23 ستمبر 2025 کو اساتذہ کے کلاسز کے بائیکاٹ اور ایڈمن بلاک کے باہر دھرنے سے ہوا۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وائس چانسلر ایک ہی سال میں اتنا بدنام اور برا ثابت ہوا ہو کہ ایک سال میں ہی ہر طرف مایوسی اور تباہی نظر آنے لگے- اس وائس چانسلر کا نہ تو کوئی ویژن ہے اور نہ ہی مثبت سوچ جس وجہ سے ایک ہی سال میں حالات گھمبیر ہو چکے ہیں- موجودہ وائس چانسلر نے آتے ہی یونیورسٹی کو صاف اور سرسبز بنانے کی مہم شروع کی جو مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہو گئی، بلکہ اب تو حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ جو درخت ان کے آنے سے پہلے سرسبز و شاداب تھے اور ان سے پہلے والے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے لگوائے تھے اب وہ پانی نہ دینے کی وجہ سے سوکھ گئے، بلکہ کئی ایکڑز پر مشتمل باغ اور لکڑی دار جنگل بھی سوکھ کر تباہ ہو گیا، اس حوالے سے پروفیسر احسان قادر بھابھہ جو کہ بی زیڈ یو فارسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں، کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے جس میں پانی نہ دینے سے پورا جنگل سوکھ جانے کا نوحہ پیش کیا گیا ہے- اس کے بعد ڈیجیٹیلائزیشن کا ڈھنڈھورا پیٹا گیا جو کہ ابھی تک مکمل طور پر ناکامی سے دوچار ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ سال 2024 میں قائمقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی نے 8000 نئے داخلے کئے تھے مگر موجودہ وائس چانسلر کی ڈیجیٹیلائزیشن کے نظام میں اتنی خرابیاں ہیں کہ نئے داخلہ لینے والے طلباء دل برداشتہ ہو کر دوسری یونیورسٹی کی طرف چلے گئے ہیں اور زکریا یونیورسٹی میں 2024 کی نسبت اس سال 40 فیصد کم داخلے ہوئے ہیں- اس میں ایک وجہ فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ بھی بتائی جا رہی ہے- جنوبی پنجاب کے لوگ پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں اور اتنی زیادہ فیسیں کیسے ادا کر سکتے ہیں- بجائے جنوبی پنجاب کے بچوں کے لئے فیس کم کرنے کے اور سکالرشپ بڑھانے کے موجودہ وائس چانسلر عجیب پالیسی اپنائے ہوئے ہیں-اس ایک سال میں وائس چانسلر باہر سے ایک روپے کی فنڈنگ نہیں لا سکے بلکہ یونیورسٹی خزانے سے بیرون ممالک کے کئے دورے کر چکے ہیں جو اس بات کی نشاندھی ہے کہ وائس چانسلر اس یونیورسٹی میں کچھ کرنے کی بجائے انجوائے کرنے آئے ہیں۔ یونیورسٹی حلقوں میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ وائس چانسلر ہر ہفتے اپنی فیملی سے ملنے راولپنڈی جانے اور واپس یونیورسٹی آنے کے لئے نہ صرف سرکاری گاڑی، ڈرائیور اور فیول استعمال کرتے ہیں بلکہ واپسی پر ڈیلی الاؤنس بھی لیتے ہیں جس کے لئے سوموار والے دن خزانے دار آفس کے عملے کو پہلے سے پابند کیا ہوتا ہے کہ جیسے ہی وائس چانسلر کی گاڑی یونیورسٹی میں داخل ہو تو ڈیلی الاؤنس کی رقم وائس چانسلر کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائے-وائس چانسلر نے یہ جعلی دعوے بھی کئے ہیں کہ میں نے بجلی کے بلوں اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو کم کر کے لاکھوں روپے کی بچت کی ہے جو کہ مکمل جھوٹ ہے- یونیورسٹی کے بجلی کے بل میں کمی کی وجہ یونیورسٹی کے اندر رہائشیوں کا اپنے گھروں میں سولر سسٹم انسٹال کرنا ہے، جس سے بجلی کی کھپت کم ہوئی ہے مگر اس سے یونیورسٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ سولر سسٹم لگنے سے گھروں کے بل کم ہوئے ہیں جو پہلے رہائشی ادا کرتے تھے- لھذا یونیورسٹی کے اخراجات میں کوئی کمی نہیں ائی- اسی طرح ٹرانسپورٹ کے فیول میں بچت کا ڈرامہ بھی صرف ڈرامہ ہے کیونکہ بہت سارے ضروری روٹس بند کر دئیے گئے ہیں جن کی وجہ سے طلباء نے دوسری یونیورسٹیوں کا رخ کر لیا ہے- جس سے یونیورسٹی کو فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہوا ہے- اس لئے اگر موجودہ وائس چانسلر کے ایک سال کا تجزیہ کیا جائے تو مکمل طور پر ناکامی اور ادارے کو مالی نقصان، بدانتظامی، اور بدنامی کی صورت نظر آتی ہے- تعلیمی حلقوں نے ڈاکٹر زبیر اقبال کی انتظامی کارکردگی پر نہ صرف مایوسی کا اظہار کیا ہے بلکہ ان کے اخلاقی رویے پر شدید تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جامعہ زکریا کو کوئی معتبر وائس چانسلر دیا جائے جو اس مادر علمی کا وقار بحال کر سکے۔








