ملتان (سٹاف رپورٹر) خواتین یونیورسٹی ملتان کی پرائیویٹ اور جعلی تجربے کی بنیاد پر تعینات ہونے والی غیر قانونی پروفیسر، غیر قانونی پرو وائس چانسلر و عارضی وائس چانسلر نے نئی ریگولر وائس چانسلر کی تعیناتی سے قبل ہی پوری یونیورسٹیمیں غیر قانونی تقرریاں کر کے اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی اور نئی وائس چانسلر کے آنے سے قبل ہی تمام اہم عہدوں پر اپنی ہم خیال تقرریاں شروع کر دیں۔بعض عہدوں پر جنرل کیڈر کے افراد کو ایکس کیڈر پوسٹوں پر تعینات کرنا شروع کر دیا تاکہ نئی وائس چانسلر کے آنے سے قبل ہی پوری یونیورسٹی میں اپنی ٹیم تیار کی جا سکے۔ جبکہ 25 جولائی 2025 کو ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق گورنر پنجاب و چانسلر کی ہدایت پر، پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ، جو اس وقت پرو وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں، کو ویمن یونیورسٹی ملتان کے صرف روزانہ کے اُمور کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر وہ روزانہ کے امور کی نگرانی کی بجائے تقرری و ٹرانسفر میں زیادہ مصروف نظر آتی ہیں۔ تفصیل کے مطابق غیر قانونی پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کا چارج ڈاکٹر عاصمہ بشیر، باٹنی ڈیپارٹمنٹ کا چارج ڈاکٹر عابدہ عزیز، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا چارج ڈاکٹر ثمینہ اختر، زوالوجی ڈیپارٹمنٹ کا چارج ڈاکٹر شازیہ پروین کو بطور ٹیچر انچارج دے دیا۔ اسی طرح غیر قانونی پروفیسر و غیر قانونی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے من مانیاں کرتے ہوئے نئی وائس چانسلر کی امد سے قبل انتظامی افسران کے دھڑا دھڑ انتقامی بنیادوں پر تبادلے کر دیے اور خلاف قانون ملازمت کے کیڈر تک تبدیل کر دیے گئے تاکہ انتظامی افسران کے کیریئر کو نقصان پہنچایا جا سکے۔خواتین یونیورسٹی ملتان میں ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے اپنی مخصوص لابی کی ایما پر متعدد انتظامی افسران کے تبادلے کر دیے جن میں سابق قائم مقام خزانچی ریحان قادر اسسٹنٹ خزانچی کو اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات بنا دیا اسی طرح سابقہ قائم مقام خزانچی زارہ رفیق اسسٹنٹ خزانچی کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر ORIC بنا دیا جب کہ سائرہ ناصر اسسٹنٹ رجسٹرار کو بھی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ORIC میں تبدیل کر دیا جبکہ قانونی طور پر غیر قانونی تجربے وہ بھی پرائیویٹ کی بنیاد پر تعینات عارضی وائس چانسلر کسی بھی طور پر انتظامی افسر کی اجازت یا رضامندی کے بغیر کیڈر ملازمت کو تبدیل نہ کر سکتی ہے اور ایسی صورت میں صرف سینڈیکیٹ مجاز اتھارٹی ہے جبکہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو گورنر پنجاب نے صرف روز مرہ امور کو سر انجام دینے کے لیے وائس چانسلر کا عارضی طور پر اضافی چارج دیا تھا لیکن ڈاکٹر کلثوم پراچہ نہ صرف روز مرہ امور سرانجام دینے کی بجائے اہم انتظامی امور اور پالیسی امور میں فیصلہ کن دخل اندازی کر رہی ہے بلکہ اپنے اختیارات اور مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے انتظامی افسران اور اساتذہ کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہیں جس سے نہ صرف یونیورسٹی کے انتظامی امور درہم برہم ہوں گے بلکہ یونیورسٹی میں مقدمہ بازی میں بھی اضافہ ہوگا جس سے یونیورسٹی کو معاشی نقصان ہوگا واضح رہے کہ مستقل وائس چانسلر کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے انٹرویوز کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے اور ائندہ چند ہفتوں میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی یقینی ہے لیکن ڈاکٹر کلثوم پراچہ دانستہ اپنے اختیارات سے متجاوز اقدامات کے ذریعے اپنی ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کر رہی ہے۔








