ملتان (سٹاف رپورٹر) ویمن یونیورسٹی ملتان کی عارضی وائس چانسلر و پرو چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ سرکلر کے بعد اساتذہ اور ملازمین کا رد عمل سامنے آ گیا ہے اور اساتذہ کی جانب سے جاری کردہ رد عمل کے مطابق یونیورسٹی میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 14, 15, 25 اور آرٹیکل 27 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ آرٹیکل 25 اور 27 (قانون کے سامنے برابری): یہ ضمانت دیتا ہے کہ تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں اور قانون کے یکساں تحفظ کے حقدار ہیں، اگرچہ عدالتوں کی طرف سے معقول درجہ بندی (reasonable classification) کی اجازت دی گئی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ جو کہ بذات خود پرو چانسلر ہیں اور خود وقت کی پابندی نہیں کر رہیں جبکہ وائس چانسلر کا عارضی عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے سکیورٹی گارڈز کو اپنی ان اینڈ آئوٹ ٹائمنگ نوٹ کرنے سے منع بھی کر دیا ہے۔ گیٹ پر تعینات گارڈ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ پرسوں خود 10:30 بجے آئی تھیں اور گزشتہ روز 10 بجے یونیورسٹی آئیں تھیں۔ یونیورسٹی اساتذہ کے مطابق ڈاکٹر کلثوم پراچہ جو کہ بنیادی طور پر یونیورسٹی ملازم ہیں اور پروفیسر و پرو وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں انہوں نے تمام اساتذہ کے لیے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جبکہ وہ خود اس نوٹیفکیشن کی پابندی نہیں کر رہیں۔ یونیورسٹی اساتذہ کے مطابق پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو یونیورسٹی کا چارج صرف اور صرف روز مرہ کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے دیا گیا مگر وہ روز مرہ کے کاموں سے ہٹ کر غیر ضروری فیصلے کر رہی ہیں جبکہ اس بارے میں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی خاموشی افسوسناک ہے۔ سرکلر کے مطابق یونیورسٹی کے تمام اساتذہ اور افسران کو صبح 9 بجے سے دوپہر ساڑھے تین بجے تک اپنے شعبہ جات سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی ہنگامی حتٰی کہ سرکاری کام کے سلسلے میں بھی یونیورسٹی سے باہر جانے کے لیے عارضی وائس چانسلر کے سامنے پیش ہو کر اپنے موقف کا دفاع کرنا ہوگا اور تحریری اجازت نامہ بھی پیش کرنا ہوگا۔ سرکلر میں یہ بھی درج ہے کہ سیکیورٹی عملہ اس پالیسی پر اساتذہ و ملازمین سے سختی سے عمل درآمد یقینی بنائے گا اور کسی بھی خلاف ورزی پر خواتین پروفیسرز کے خلاف تحریری کیس بنا کر عارضی وائس چانسلر کے سامنے پیش کرے گا۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ موقع پر ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی جائے گی۔ جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 14 اور 15ہر شہری کو بنیادی انسانی حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے جن میں انسانی حرمت، زندگی کا تحفظ، اور نقل و حرکت کی آزادی شامل ہیں ۔اس شق کے تحت نہ صرف ہر فرد کی عزت و تکریم کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔بلکہ کسی شخص کو شہادت حاصل کرنے کے لیے ایذا رسانی یا تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ان شقوں کا مقصد ایک مہذب، باوقار اور انصاف پسند معاشرے کی بنیاد رکھنا ہے جہاں ہر فرد کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین میں موجود یہ دفعات نہ صرف شہری آزادیوں کی ضمانت دیتی ہیں بلکہ ریاستی اداروں کو بھی پابند کرتی ہیں کہ وہ کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں۔ چنانچہ فیکلٹی ممبران جو کہ خواتین اساتذہ پر مشتمل ہے، نے اس اقدام کو خواتین یونیورسٹی میں خواتین اساتذہ کی پرائیویسی اور عزت نفس کے خلاف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ اسلامی و سماجی اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ اگر پرو وائس چانسلر یا عارضی وائس چانسلر ایسے اعمال سے باز نہ آئی تو عارضی وائس چانسلر کے خلاف احتجاجی مہم چلائی جائے گی۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سخت نگرانی سے مرد سیکیورٹی عملے کی خواتین اساتذہ کی جھڑپ روز کا معمول ہے جو کہ تعلیمی ادارے کے تدریسی ماحول کو بری طرح متاثر کر رہی ہے اور اس طرح ویڈیو ریکارڈنگ جیسی حرکات خواتین فیکلٹی کی عزت نفس اور خودمختاری پر براہِ راست حملہ ہے۔ ان کے مطابق عارضی وائس چانسلر کو علمی و تحقیقی سرگرمیوں پر توجہ دینے کے بجائے غیر ضروری کنٹرول اور دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپنانا افسوسناک ہے۔ مزید برآں حالیہ دنوں میں عارضی وائس چانسلر کی جانب سے 400 سے زائد امیدواروں کے انٹرویوز صرف نام اور تعلیمی قابلیت پوچھ کر مکمل کیے گئے۔ حیران کن طور پر انٹرویوز میں ڈیلی ویجرز اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مزدوروں کو بھی براہِ راست عارضی وائس چانسلر نے انٹرویو کیا جسے اساتذہ نے میرٹ کے اصولوں کا مذاق قرار دیا ہے۔ اساتذہ اور ملازمین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بجٹ میں اضافہ منظور ہونے اور سنڈیکیٹ کی منظوری کے باوجود اب تک تنخواہوں میں اضافہ جاری نہیں کیا گیا، جس سے معاشی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ اساتذہ اور ملازمین نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن اور دیگر متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ویمن یونیورسٹی ملتان میں عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے اختیارات کے ناجائز استعمال اور غیر اخلاقی پالیسیوں کا فوری نوٹس لیا جائے، شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور اساتذہ و ملازمین کے وقار اور حقوق کو بحال کیا جائے۔








