ملتان (سہیل چوہدری سے) نشتر ہسپتال 2 ملتان اور چلڈرن کمپلیکس ملتان میں پچھلے سات سالوں (2018-2025) کے دوران اربوں روپے کی مبینہ کرپشن اور انتظامی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ محکمہ صحت پنجاب نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر دی جو ادویات کی غیر معیاری اور جھوٹی (گھوسٹ) خریداری، مخصوص کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ٹھیکوں کی تقسیم، سول ورکس اور ترقیاتی منصوبوں میں جانبداری، اہم عہدوں پر من پسند افسران کی تعیناتی اور پروکیورمنٹ قوانین، مالیاتی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے گی۔ذرائع کے مطابق یہ کرپشن کیسز مالی سال 2018-2019 سے 2024-2025 کے دوران پیش آئے، جن میں ادویات کی خریداری پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز ہے۔ مبینہ طور پر، ہسپتال انتظامیہ نے غیر معیاری ادویات کی بڑے پیمانے پر خریداری کی، جو مریضوں کی جان کے لیے خطرہ بن چکی تھیں۔ اس کے علاوہ، “گھوسٹ خریداریاں” یعنی جعلی بلنگ اور فارغ سامان کی خریداری کے ذریعے لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ایک اعلیٰ افسر نے بتایا، “یہ صرف ادویات تک محدود نہیں، بلکہ سول ورکس جیسے ہسپتال کی مرمت اور توسیع کے ٹھیکوں میں بھی اربوں روپے کی چوری ہوئی۔ مخصوص کمپنیوں کو نوازنے کے لیے اوپن بڈنگ کی بجائے خفیہ معاہدے کیے گئے، جو پروکیورمنٹ ایکٹ 2009 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”کمیٹی کا قیام سیکرٹری ہیلتھ پنجاب کے نوٹیفکیشن کے ذریعے ہوا ہے، جس میں سپیشل سیکرٹری ہیلتھ جنوبی پنجاب امان اللہ کو کنوینر اور ڈائریکٹر فنانس فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سرفراز احمد اور ڈپٹی سیکرٹری ہیلتھ پنجاب میاں مراد حسین کو ارکان مقرر کیا گیا ہے۔ ایک کوآپٹیڈ ممبر کو بھی شامل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ تحقیقات جامع ہوں۔ کمیٹی کو 30 دن میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس کی بنیاد پر ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکوں میں جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہسپتال کی عمارتوں کی تعمیر نو اور جدید آلات کی تنصیب کے معاہدوں میں قریبی کمپنیوں کو ترجیح دی گئی، جبکہ کم از کم 20 فیصد بجٹ کو “کمیشن” کی صورت میں ضائع کیا گیا۔ اسی طرح، ایم ایس (میڈیکل سپرنٹنڈنٹ) اور دیگر کلیدی عہدوں پر سیاسی دباؤ میں من پسند افسران تعینات کیے گئے، جو مالیاتی قواعد اور میرٹ کے اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔ ایک سابق ایم ایس نے خفیہ طور پر کہا، “یہ سب کچھ اعلیٰ سطحی سرپرستی میں ہوا، جہاں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا تاکہ ذاتی مفادات پورے ہوں۔” نشتر اور چلڈرن ہسپتال جیسے اداروں میں کرپشن نے نہ صرف بجٹ کو خالی کیا بلکہ ہزاروں مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا۔ غیر معیاری ادویات کی وجہ سے متعدد کیسز میں علاج ناکام ہوا جو قومی بحران ہے۔یہ انکشاف جنوبی پنجاب کی صحت کی صورتحال پر مزید روشنی ڈالتے ہیں، جہاں پہلے ہی وسائل کی کمی اور انتظامی مسائل موجود ہیں۔ اگر تحقیقات سے ٹھوس ثبوت سامنے آئے تو یہ کیس نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو (نیب) تک پہنچ سکتا ہے۔ محکمہ صحت نے واضح کیا ہے کہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مستقبل میں ڈیجیٹل پروکیورمنٹ سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔








