آج کی تاریخ

میپکو کی صارف دشمنی عروج پر، بجلی غائب، کنکشن فیس 26 ہزار، میٹر خود خریدیں

ملتان ( رفیق قریشی سے ) میپکو کی صارف دشمنی عروج پر ہے جبکہ میپکو صارفین کی کئی شنوائی نہیں۔ آئے روز کی نت نئی پالیسیوں کی تشکیل کی وجہ سے میپکو صارف کے لیے ذہنی اور مالی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔گھنٹوں بجلی کی بندش سے شہری ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں ۔غیر اعلانیہ بجلی بندش کو فنی خرابی قرار دینے والے میپکو افسران کا کئی کئی گھنٹے تک لائن پر فالٹ تلاش کرنے میں ناکامی دراصل انجینئرز کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ ٹرانسفارمر جلنے کی صورت میں ٹرانسفارمر تبدیلی کے لیے کم از کم ڈھائی گھنٹے مسلسل فیڈر بند رکھا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ٹرانسفارمر فوری تبدیل نہ ہونا تشویش کا باعث ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ میپکو ریجن کے 13 ضلع میں گھریلو کنکشن کے لیے ڈیمانڈ نوٹس کے اجرا پر پابندی کا ایک ماہ مکمل ہونے کے بعد میپکو اتھارٹی نے صارف دوست کلچر کا جنازہ نکالتے ہوئے 9 سے 10 ہزار روپےکے گھریلو ڈیمانڈ نوٹس میں اضافہ کر کے 26 ہزار روپے کر دیا ہے ۔نئے کنکشن کے حصول کے لیے درخواست گار کو نیا گھریلو میٹر ازخود خریدنے کا پابند کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ میٹرز مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو جن کی تعدا پانچ سے چھ بتائی جارہی ہے مبینہ طور پر ان کمپنیوں کو پہلے ہی اس پالیسی کی اطلاع ہوچکی تھی ۔پالیسی پر عملدرآمد کے ساتھ ہی دس ہزار روپے والا بجلی کا میٹر تقریباً 20 ہزار روپے میں صارف کو دستیاب ہوگا ۔ذرائع نے بتایا کہ اتھارٹی نے ایسے وقت پر یہ پالیسی تشکیل دی ہے جب کہ مالی طور پر مستحکم میپکو صارفین کی بڑی تعداد پہلے ہی سولر نیٹ میٹرنگ پر منتقل ہو چکی ہے جبکہ غریب متوسط شہری میپکو کی بجلی استعمال کررہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ بجلی جب وافر موجود ہے تو اتھارٹی کو چاہیے تھا کہ زیادہ سے زیادہ کنکشن کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے نیو کنکشن کی حصول کے طریقہ کار کو آسان اور مالی لحاظ سے قابل برداشت بناتے تاکہ غریب متوسط شہری بھی بجلی کا کنکشن باآسانی حاصل کر سکتا لیکن میپکو اتھارٹی صارفین کو سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہوچکی ہے۔واضح رہے کہ توانائی بورڈ ( پاور ڈویژن ) کے وفاقی وزرا کا تعلق اسی خطے سے سے اور اس صورتحال سے بے خبر ہیں یا انہوں نے دانستہ آنکھیں بند کررکھی ہیں جبکہ میپکو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی میپکو صارفین کی کوئی نمائندگی نہیں ہے جبکہ ماضی میں ایسا نہیں تھا ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں