ملتان( کرائم سیل رپورٹ) شہر کے وسط میں واقع ایک بڑے احاطے میں پولیس کے تھانے بھی ہیں اور افسران بھی بیٹھتے ہیں۔ انہی افسران کی میز پر متعدد فائلوں کے نیچے ایک ایسی فائل بھی دبی پڑی ہے جس میں ملتان کے شکیل میو (سابق ہاکراور موجودہ چیئرمین الحرمین بلڈرز) اور ابرار نامی دو جعل سازوں، سود خوروں، فراڈیوں اور سکہ بند ٹھگوں کے خلاف مبینہ طور پر 70 کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کےمتعدد مقدمات کی ایف آئی آرز اور سطحی قسم کی تفتیش کی تفصیلات انصاف کے انتظار میں گل سڑ کر سرانڈ دے رہی ہیں۔ ان مقدمات کے مدعیوں کے مقدر میں ذلت اور 70 کروڑ لوٹنے والے سود خور تھانے میں پروٹوکول حاصل کرکے کروفر کے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ میرٹ کے دعوے دار مذکورہ افسران ملتان کے دو ٹھگوں کے خلاف ان مقدمات کے مدعیوں کو طویل انتظار کروانے کے بعد اپنے ٹھنڈے دفتر میں طلب کرکے یہ کہہ کر چلتا کرتے ہیں کہ اگر ہم نے ان دونوں کو گرفتار کر لیا تو آپ کے پیسے ڈوب جائیں گے اور یہی راگ مذکورہ دونوں پولیس افسران گزشتہ دو سال سے الاپ رہے ہیں۔ مقدمہ درج کروانے والے مدعی حضرات کا موقف ہے کہ ہمارے پیسے تین سال سے ڈوبے ہوئے ہیں اب تک نہیں ملے تو آئندہ بھی ہمیں امید نہ دلوائیں بلکہ آپ ایف آئی آرز پر کاروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کریں مگر مدعی حضرات کو تو ٹھنڈا پانی بھی نصیب نہیں ہوتا اور 12 مقدمات کے نامزد ٹھگ آؤ بھگت کروا کر پولیس افسران کے کمروں سے واپس چلے جاتے ہیں۔ خانیوال کے ایک سکہ بند ٹاؤٹ کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف ائی آر کے نامزد ملزم بارے تو پولیس ایک مکمل چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے گناہوں کی ایک طویل فہرست اس کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے ۔اس کیخلاف یقینی طورپر شکایات ہوں گی مگر حقیقی مدعی سامنے لائے جاتے کیونکہ مدعی مقدمہ کے سابقہ ریکارڈ و کردار اور ایف آئی آر کے متن سے بہت کچھ عیاں ہو رہا ہے۔ معاملات شفافیت سچائی اور حقائق پر مبنی تھےتو کسی ٹاؤٹ کو ایف آئی آر کا مدعی کیوں بنایا گیا۔ بہت سال پہلے ملتان میں تعینات ساہیوال کے ڈومیسائل ہولڈر ایک پولیس افیسر تھانے کو بھانے کہا کرتے تھے۔ ایک دن سوال کیا کہ یہ آپ نے کیا ردیف اور قافیہ ملا رکھا ہے تو گویا ہوئے کہ بھانوں میں جو بھینس دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی اسے چارہ ڈالنا بھی کسی کو گوارا نہیں ہوتا اور جو بالٹی بھر کر دودھ دیتی ہے اس کی خوب آؤ بھگت ہوتی ہے۔ بس یہی صورتحال ان دنوں ہے اسی لیے میں اپنے تھانوں کو بھانے کہتا ہوں۔ شکیل میو اور ابرار جیسے سود خوروں اور سکہ بند ٹھگوں کے پاس ادھر ادھر سے جمع کیا گیا اچھا خاصا دودھ ہے تو آؤ بھگت کے حقدار وہ کیوں نہ ٹھہرائے جائیں، ویسے بھی کرنسی نوٹوں پر کہاں لکھا ہوتا ہوا ہے کہ یہ سود کا مال ہے، ویسے بھی کون تردد کرے اور سود خوری کے حوالے سے اللہ تبارک و تعالی کے احکامات کھنگھالتا پھرے۔ رہا معاملہ ایک “معمولی صحافی” کا تو، دودھ دینا تو درکنار اس سے تو مستقبل بعید تک ایک گلاس چھاچھ کی بھی امید نہیں تو پھر اسے بال کاٹ کرراندہ درگاہ اور نشان عبرت کیوں نہ بنایا جائے۔ جن دنوں پولیس آرڈر 2002 بن رہا تھا تو اس ٹیم میں شامل ایک پولیس افیسر سے ایک صحافی نے سوال کیا، سر اپ کے خیال میں اس نئے پولیس آرڈر کے بعد کوئی بہتری کی امید ہے، تو وہ کہنے لگے، پتر جس دن یونیفارم پہنے ہوئے سپاہی کسی غریب کی گلی میں سکیورٹی پر مامور ہو جائیں گے اور بڑے بڑے گیٹوں کے باہر سے پولیس کے ٹینٹ ہٹ جائیں گے تب امید رکھنا کہ تبدیلی آئے گی مگر اس دن سے پہلے ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ ہماری عزت، وقار، طمطراق، میرٹ اور اخلاقی اقدار کے معیار بھی کتنے بدل چکے ہیں، ہم اپنے لیے تو انگریز دور سے جاری مونچھ الاؤنس آج بھی پسند کرتے ہیں اور دوسروں کی موچھیں کاٹتے، سر اور بھووں کے بال مونڈھتے ہیں۔ اس مختصر ترین زندگی میں ہم بھی کیسے عارضی معزز ہیں کہ اگلے لمحے کا علم اور ادراک بھی نہیں رکھتے۔ کاش یہ سود خوروں کے سہولت کار اہلکارجان سکیں کہ سود لینے والا، سود دینے والا، سود خور کا تحفظ کرنے والا، سود کی تحریر لکھنے والا، سود خور کے حق میں فیصلہ دینے والا اور کسی مسلمان کو سود کے لیے قائل کرنے والا رب کائنات کے نزدیک کتنا بڑا اور کس نوعیت کا مجرم ہے۔








