ملتان (وقائع نگار) ضلع ملتان میں ڈینگی خطرناک شکل اختیار کر گیا ۔لاکھوں روپے کی مبینہ کرپشن کی وجہ سے ڈینگی سپرے نہ ہو سکا ۔ نشتر ہسپتال سمیت ملتان کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کو داخل کرنے کے لیے بیڈ کم پڑ گئے ہیں۔ ہسپتال خالی بیڈز سے محروم، ہزاروں افراد ڈینگی سے متاثر ہورہے ہیںتفصیل کے مطابق مدینتہ الاولیا ملتان میں ڈینگی بخار کی لہر نے صورتحال کو انتہائی تشویشناک بنا دیا ہے۔ مبینہ طور پر چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ہیلتھ ڈاکٹر ثوبان ضیاکی کرپشن کی وجہ سے انسدادِ ڈینگی مہم ناکام ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں نشتر ہسپتال ملتان سمیت دیگر سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے لیے خالی بیڈ دستیاب نہیں ہیں۔ معتبر ذرائع کے مطا بق ہزاروں افراد اس موذی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ متعدد ہلاکتوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔شہر بھر میں ڈینگی کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، خاص طور پر حالیہ بارشوں کے بعد لاروا کی افزائش نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ نشتر ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈز اور آئی سی یو میں مریضوں کے ہجوم کی وجہ سے طبی عملہ مشکلات کا شکار ہے۔ ایک ڈاکٹر نے بتایا ہمارے پاس نہ تو بیڈز ہیں اور نہ ہی ضروری ادویات کی کمی پورا کرنے والے وسائل۔ مریض باہر لائنوں میں انتظار کر رہے ہیں اور بعض کی حالت نازک ہو چکی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر ثوبان ضیاء جو خود کو صوبائی سیکرٹری ہیلتھ عمران خان کے قریبی رشتے دار قرار دیتے ہیں، نے ڈینگی سپرے کے لیے مختص فنڈز کا بڑا حصہ خورد برد کر لیا۔ ان فنڈز سے کیڑے مار ادویات (زہر) کی خریداری کی جانی تھی مگر اس کی بجائے پیسہ غائب ہو گیا۔ نتیجتاً انسدادِ ڈینگی ٹیموں کو ادویات کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ایک سابقہ انسدادِ ڈینگی ورکر نے بتایا ہماری تنخواہ اور الاؤنسز مہینوں سے ادا نہیں کیے گئے۔ اس وجہ سے سپرے کی مہم مکمل طور پر رک گئی ہے۔ گھروں، مسجدوں اور سکولوں میں لاروا پھیل رہا ہےمگر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ محکمہ صحت کی اندرونی دستاویزات کے مطابق ملتان ڈویژن کو رواں سال ڈینگی کنٹرول کے لیے 5 کروڑ روپے سے زائد فنڈز جاری کیے گئے تھےمگر ان کا 70 فیصد سے زیادہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبائی سیکرٹری ہیلتھ کی جانب سے ڈاکٹر ثوبان ضیاء کے خلاف اب تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قریبی رشتہ داری کی وجہ سے یہ معاملہ دبایا جا رہا ہےجو صحت کے شعبے میں مزید بدعنوانی کو فروغ دے رہا ہے۔ سول سوسائٹی کے رہنمائوں نے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر انکوائری کی جائے اور متاثرین کو انصاف ملے۔ایک مقامی این جی او کے سربراہ نے کہایہ صرف کرپشن کا معاملہ نہیں، بلکہ ہزاروں جانیں داؤ پر لگ رہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ایمرجنسی فنڈز جاری کرے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ماہرین صحت نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گھروں کے ارد گرد پانی جمع نہ ہونے دیںاور بخار کی صورت میں فوری طبی امداد حاصل کریں۔ یہ بحران ملتان کی صحت کی سہولیات کی کمزوریوں کو اجاگر کر رہا ہے۔








