ملتان(جوائنٹ ایڈیٹر ڈیسک) ملتان میں جعلی کھادوں کی تیاری اور ترسیل میں محکمہ زراعت کے افسران کی مبینہ سرپرستی کا سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا ہے، جس کے باعث مقامی کسانوں کو کروڑوں روپے کے نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ یہ الزامات ایک شہری نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو ارسال کی گئی شکایت میں عائد کیے ہیں، جو وزیر اعلیٰ کے شکایات پورٹل کے ذریعے جمع کرائی گئی۔شکایت کنندہ کے مطابق سابق ایگریکلچر آفیسر اللہ رکھا اور محکمہ کے دیگر اہلکار ملتان انڈسٹریل اسٹیٹ میں جعلی کھادیں تیار کرنے والی فیکٹریوں اور گوداموں کی موجودگی سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ ان فیکٹریوں میں این پی کے (نائٹریٹ فاسفورس)، سنگل سپر فاسفیٹ (ایس ایس پی)، اور بایو آرگینو فاسفیٹ (بی پی) جیسی کھادیں تیار کی جا رہی تھیں۔ الزام ہے کہ متعلقہ افسران نہ صرف خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ ان عناصر کی پشت پناہی بھی کرتے رہے۔شکایت میں مزید کہا گیا ہے کہ اللہ رکھا جعلی کھاد بنانے والے مافیا سے باقاعدہ رقوم وصول کرتا رہا جبکہ اُس وقت کے اکاؤنٹنٹ بہادر خان کو مالی بدعنوانی میں ملوث قرار دیا گیا ہے جس نے مبینہ طور پر ڈی ایچ اے ملتان میں کروڑوں روپے مالیت کا گھر تعمیر کروایا۔ محکمہ کا ایک ڈرائیور سعیدبھی رشوت کی رقوم کی ترسیل میں سہولت کار بتایا گیا ہے۔شکایت پر فوری کارروائی کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ آفس نے سیکریٹری زراعت پنجاب کو ہدایت دی کہ اللہ رکھا کو لاہور منتقل کیا جائے جس پر عملدرآمد ہو چکا ہے تاہم ابھی تک انہیں کوئی نیا عہدہ نہیں دیا گیا۔ شکایت کنندہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اللہ رکھا اور اس کے قریبی رشتہ داروں کے بینک اکاؤنٹس، جائیدادوں اور مالی اثاثہ جات کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے تاکہ مزید حقائق سامنے آسکیں۔ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت (ایکسٹینشن) ملتان محمد شاہد چیمہ نے صحافیوں سے گفتگو میں یقین دہانی کروائی ہے کہ معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے گی اور فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سیکریٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو کو پیش کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ قصور واروں کو کسی صورت نہیں بخشا جائے گا۔اس معاملے پر ایڈیشنل سیکریٹری ایگریکلچرل ٹاسک فورس راؤ محمد افضل کو بھی سوالنامہ بھیجا گیا، تاہم خبر کے شائع ہونے تک ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ وزیر اعلیٰ آفس کے ذرائع کے مطابق جعلی کھاد اسکینڈل سے متعلق شائع ہونے والی خبر کے بعد خفیہ اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ معاملے کی خفیہ تحقیقات کریں، اور ایک جامع رپورٹ جلد وزیر اعلیٰ کو پیش کی جائے گی۔یہ انکشاف ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب جعلی زرعی اجناس کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں ملتان میں ایک گودام پر چھاپے کے دوران 962 بوریاں جعلی کھاد برآمد کی گئیں، جن کی مالیت 1 کروڑ 16 لاکھ روپے سے زائد تھی۔ اس سے قبل بھی 300 بوریاں جعلی کھادیں ضبط کی گئیں۔ گزشتہ برسوں میں بھی جعلی زرعی ادویات اور کھادوں کے متعدد اسکینڈل سامنے آ چکے ہیں۔جعلی کھادوں کے استعمال سے کسان نہ صرف مالی نقصان کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ ان کی فصلیں بھی تباہ ہو رہی ہیں، جس سے زرعی پیداوار میں کمی، مہنگائی میں اضافہ اور اداروں پر عوامی اعتماد میں شدید کمی واقع ہو رہی ہے۔ ضلع نارووال میں جعلی کھاد اور زہریلی ادویات کے باعث 2,173 ایکڑ پر کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں، جس سے 30 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔اگر ملتان میں سامنے آنے والے الزامات درست ثابت ہو گئے تو اس کے اثرات پنجاب کی زرعی پالیسی اور گورننس پر گہرے مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس معاملے میں محض تبادلوں یا رسمی کارروائیوں سے بات نہیں بنے گی بلکہ مکمل فوجداری تحقیقات، ملوث افراد سے اثاثوں کی بازیابی اور متاثرہ کسانوں کو معاوضے کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔جعلی کھاد








