ملتان ( ایڈیٹر رپورٹنگ) ویمن یونیورسٹی ملتان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مقرر کردہ قواعد و ضوابط ( Criteria ) کی کھلی خلاف ورزی کا انکشاف ہوا ہے، مستقل فیکلٹی پر 12 کے بجائے 20 کریڈٹ آورز کا بوجھ، اضافی 14 کریڈٹ آورز کے پیسے بھی یونیورسٹی انتظامیہ مبینہ طور پر خود ہی ہضم کرنے لگی ہے، اساتذہ اضافی پیسوں سے بھی محروم، اضافی کریڈٹ آورز سے انکار پر ملازمت سے نکالنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں جس کی وجہ سے اساتذہ ذہنی اذیت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ تفصیل کے مطابق ویمن یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انکشاف کیا ہے کہ ویمن یونیورسٹی ملتان میں ٹیچرز پر اضافی بوجھ ڈال کر ان کو پریشان کیا جا رہا ہے، ایچ ای سی کرائٹیریا کے تحت مستقل فیکلٹی میں لیکچرار کے لیے 12 کریڈٹ آورز فی ہفتہ، اسسٹنٹ پروفیسر 9 کریڈٹ آورز، ایسوسی ایٹ پروفیسر 6 کریڈٹ آورز اور پروفیسر کے لیے تین کریڈٹ آورز فی سمسٹر مضامین پڑھانے ہوتے ہیں لیکن ایچ ای سی کے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرکے اساتذہ پر 20، 20 کریڈٹ آورز کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر اذیت یہ ہے کہ 20 کریڈٹ آورز بھی کسی ایک کیمپس میں متعین نہیں ہیں، اس میں اساتذہ کو چند کریڈٹ آورز متی تل کیمپس اور چند کچہری کیمپس میں پڑھانے ہوتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ویمن یونیورسٹی انتظامیہ نے ڈیزل بچانے کے لئے اساتذہ کو سفری سہولیات بھی مہیا نہیں کیں، الٹا اضافی ورک لوڈ پڑھانے والے اساتذہ کے پیسے بھی مبینہ طورپر رجسٹرار، ٹریژرار اور پرو وائس چانسلر کی ملی بھگت سے غبن کئے جا رہے ہیں اور اساتذہ اضافی کریڈٹ آورز کے معاوضوں سے محروم ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ویمن یونیورسٹی میں اساتذہ کو فی کریڈٹ آرز 1500 روپے اضافی لوڈ کا ملتا ہے۔ اس طرح 8 اضافی کریڈٹ آرز کے فی ٹیچر 12 ہزار روپے فی ہفتہ اور ماہانہ 36 ہزار روپے بنتے ہیں جوکہ اساتذہ کو نہیں دیئے جا رہے جبکہ اضافی ورک لوڈ سے انکار پر اساتذہ کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ انہیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ان کو ایکسپلینیشن دی جائے گی اور اے سی آر بھی خراب کر دی جائے گی ۔ اس صورت حال میں متعدد خواتین اساتذہ جن کے چھوٹے بچے ہیں یا انہوں نے گھر واپس آ کر گھریلو کام کاج بھی نمٹاتے ہوتے ہیں وہ ساڑھے پانچ سے 6 بجے شام تک بمشکل واپس گھر پہنچ پاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے ہیں۔دوسری جانب ویمن یونیورسٹی کی ترجمان انعم زہرہ اور ڈاکٹر دیبا شہوار نے اس حوالے سے مؤقف میں کہا ہے کہ یونیورسٹی میں ہمیشہ قوانین کی پاسداری کی جا تی ہے کریڈٹ آورز کے حوالے سے معلومات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ریکارڈ کے مطابق کوئی بھی ٹیچر 15 کریڈٹ آورز سے زیادہ نہیں پڑھاتی، ایک موقع پر یونیورسٹی انتظامیہ نے ایسی طالبات جن کا ایم فل تھیسز مکمل نہیں ہو پا رہا تھا ان کی ٹیچر کو ہدایت کی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو پھر اضافی کریڈٹ آورز پڑھا سکتی ہے لیکن تاحال کسی ٹیچر نے بھی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور روٹین کے مطابق مقرر کریڈٹ آور پڑھا رہی ہیں۔ڈاکٹر کلثوم پراچہ جو کہ پرو وائس چانسلر کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں وہ اپنی مرضی سے 9 کیڈٹ آ ورز پڑھاتی ہیں ، لہٰذافیکلٹی نے ایسی کسی شکایت کا اظہار نہیں کیا ہے۔ یاد رہے کہ کریڈٹ آورز ٹائم ٹیبل کے دستاویزی ثبوت روزنامہ قوم کے پاس موجود ہیں۔
