آج کی تاریخ

غلط پالیسیاں، کسانوں کو 22 سو ارب نقصان

ملتان ( قوم نیوز)پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ زرعی شعبے کی بحالی کے لیے متحد ہوں کیونکہ یہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے گندم مارکیٹ کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست دائر نہ کرے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت اس فیصلے کو چیلنج کرے گی تو پاکستان کسان اتحاد بھی عدالت سے رجوع کرے گا۔خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ گندم تمام فصلوں کی بنیاد ہے جو ملک کی 4 کروڑ 50 لاکھ قابلِ کاشت ایکڑ زمین میں سے 2 کروڑ 40 لاکھ ایکڑ پر کاشت کی جاتی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ گزشتہ دو سالوں میں غلط قیمتوں کی پالیسیوں کے باعث کسانوں کو تقریباً 22 سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گندم کی منڈی کو آزاد کرنے کے باوجود روٹی اور آٹے کی قیمتیں مقرر کرنا کسانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر حکومت سپورٹ پرائس طے کرتی ہے تو اسے مارکیٹ ریٹس پر بھی کنٹرول رکھنا ہوگا۔پی کے آئی کے صدر نے کہا کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان خوراکی اجناس درآمد کر رہا ہےجب کہ کسانوں کے پیداواری اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ “ہمارے پاس تمام موسم اور وسائل موجود ہیں، لیکن ہماری زراعت تباہی کے دہانے پر ہے،” انہوں نے افسوس سے کہا۔انہوں نے بتایا کہ ڈی اے پی کھاد کا تھیلا 15 ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہے، جب کہ پڑوسی ممالک میں کسانوں کو سستی کھاد اور مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فصلوں کی قیمت پیداواری لاگت کے مطابق مقرر کی جائے اور اس میں 25 فیصد منافع شامل کیا جائے۔ “ہم اس حکومت کو سلام کریں گے جو گندم کی لاگت 3400 روپے فی من مقرر کرے اور اس پر مناسب منافع دے۔خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت میں 27 ارب ڈالر کا حصہ ڈالتی ہے، لیکن یہ اب بھی قومی ترجیحات میں شامل نہیں۔ کسان کی تباہی دراصل پوری معیشت کی تباہی ہے۔انہوں نے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بین الاقوامی قرض دہندگان کو یہ بتانا چاہیے کہ کسان برادری پہلے ہی شدید بحران کا شکار ہے۔ ہم پورے مشرقِ وسطیٰ کو خوراک فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب نے قومی اتحاد اور بھائی چارے کے لیے اپنا پانی سندھ کے ساتھ شیئر کیا ہے لیکن چند عناصر چولستان کی ترقی کے لیے پنجاب کے پانی کے استعمال کی مخالفت کر رہے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں