لاہور(بیورورپورٹ) ضلع کچہری لاہور میں گزشتہ چار سال کے دوران سول کورٹس کے عملے، خزانہ کے عملے اور بعض جعل سازوں کی ملی بھگت سے جعلی کارروائیوں کے ذریعے پراپرٹی سے متعلق مختلف مقدمات کی خزانے میں جمع رقوم میں سے ڈیڑھ ارب روپے کے خوردبرد کا ریکارڈ جلانے کے لیے سول سیکرٹیریٹ کے عقب میں واقع پرانی ایل ڈی اے بلڈنگ، جس میں چند سال قبل سول کورٹس قائم کر دی گئی تھیں، میں موجود جعل سازی کے تمام ریکارڈ کو تلف کرنے کے لیے اس پلازے کو گزشتہ صبح نذر آتش کر دیا گیا جس کی وجہ سے اربوں روپے کے ریکارڈ کے ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ آگ گزشتہ روز صبح نماز فجر کے بعد لگائی گئی جس سے بہت سی سول کورٹس کا ریکارڈ جل کر راکھ ہو گیا ہے ۔ضلع کچہری لاہور کی 100 سالہ تاریخ کے اس سب سے بڑے فراڈ کی انکوائری ہائی کورٹ کے حکم پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور کر رہے تھے اور اس میں ملوث مرد و خواتین سول ججوں سمیت متعدد عدالتی عملے اور عملہ خزانہ سے پوچھ گچھ ہو رہی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ لاہور میں مختلف سول عدالتوں کے ریڈرز اور اہلمد حضرات نے محکمہ خزانہ کے عملے اور بعض وکلا کے علاوہ ضلع قصور سمیت مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ٹاؤٹوں کے ذریعے ایک گینگ بنا رکھا تھا جسے خزانہ کے عملے کی طرف سے ریکارڈ فراہم کیا جاتا تھا کہ کس کس مقدمے میں کس کس کی طرف سے عدالتوں کے حکم پر بھاری رقوم سرکاری خزانے میں جمع ہیں اور مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ یہ گینگ ان میں سے پراپرٹی کے ایسے مقدمات تلاش کرتا تھا جس میں کروڑوں روپے عدالت کے حکم پر پراپرٹی خرید و فروخت کرنے کے مقدمات میں خریدار پارٹی خزانہ سرکار میں جمع کراتی تھی اور پھر زیادہ تر ادھیڑ عمر خواتین اور بزرگ شہریوں کے مقدمات کا ریکارڈ نکال لیا جاتا تھا۔ اس گینگ کا طریقہ واردات یہ تھا کہ جس عدالت میں مقدمہ چل رہا ہوتا تھا اسی عدالت میں ایک متوازی ریکارڈ کارروائی تیار کرکے چند پیشیاں ڈال کر ججوں سے کارروائی پر دستخط کرا لئے جاتے تھے پھر عدالتی عملہ اس کارروائی پر کسی فرضی مختار عام کے ذریعے درخواست دائر کیا جانا ظاہر کرکے عدالتی کاروائی کا حصہ بناتے ہوئے یہ لکھتا کہ مختار عام کو جو کہ اس بزرگ خاتون کا شہری کا ظاہر کیا جاتا تھا کہ جس کے نام پر کروڑوں روپے خزانہ میں جمع ہوتے تھے، مذکورہ بزرگ شہری یا خاتون کے مختار عام کی طرف سے دی گئی درخواست کے مطابق سیشن جج لاہور کو اپیل کی جاتی کہ درخواست گزار کو مزکورہ عدالت پر اعتماد نہ ہے ۔لہٰذا مقدمہ کسی دوسری عدالت میں منتقل کر دیا جائے پھر جونہی مقدمہ کسی دوسری عدالت میں منتقل ہوتا تو شہری کہ جس کے نام رقم خزانے میں جمع ہوتی، کی جگہ کسی فرضی بندے کو دوسری عدالت میں پیش کیا جاتا جس کے ہمراہ اس کا مختار عام ہوتا اور عدالت سے کہا جاتا ہے کہ ہماری مدعی مقدمہ سے صلح ہو گئی ہے لہٰذاخزانے میں جمع شدہ رقم نکلوانے کا حکم دیا جائے۔ حیران کن طور پر کوئی بھی جج یہ سوال نہیں کرتا کہ جب مدعا الیہ خود عدالت میں موجود ہے تو اسے اپنے ساتھ مختار عام کو پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے، وہ خود کیوں نہیں اتنی بڑی رقم نکلوا لیتا جو خود عدالت چل کر ا سکتا ہے۔ اس طرح اصل مقدمہ تو پہلی عدالت میں زیر سماعت رہتا اور اسی کی جعلی کارروائی کی بنا پر دوسری عدالت صلح نامہ کو قبول کرتے ہوئے خزانہ دار کو حکم جاری کرتی کے رقم مختار عام کو دے دی جائے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ محکمہ خزانہ جسے علم ہوتا تھا کہ یہ رقم کس مقدمے اور کس عدالت کے حکم پر جمع ہوئی ہے وہ مذکورہ عدالت سے رجوع ہی نہ کرتا اور دو چار دن ہی میں چیک جاری ہو جاتا ۔جس ٹاؤٹ کو مختار عام بنایا جاتا وہ بینک میں جا کر رقم نکلواتا اور پھر اسے ایک کروڑ پر دو لاکھ روپے مل جاتے جبکہ باقی رقم یہ فراڈیئے جن میں محکمہ خزانہ کا عملہ، عدالتی عملہ اور بعض وکیل ملوث ہوتے آپس میں تقسیم کر لیتے تھے۔ چند سال بعد جب سول مقدمات کا فیصلہ ہوتا اور فیصلے کی روشنی میں جائیدادیں ٹرانسفر ہو جاتیں تو آخری مرحلے کے طور پر فروخت کنندہ کے نام چیک جاری کرنے کے لئے متعلقہ سول جج احکامات جاری کرتے تو خزانہ دار کی طرف سے تحریری رپورٹ عدالت میں پیش کر دی جاتی کہ یہ رقم تو پراپرٹی مالک صلح کی بنیاد پر رقم جمع ہونے کے دو چار ماہ بعد ہی نکلوا چکا ہے۔ یہ فراڈ لاہور میں سال 2020 سے جاری تھا اور گزشتہ چار سال کے دوران ڈیڑھ ارب روپے جو کہ خزانہ میں جمع شدہ تھا منظم فراڈ سے نکلوا کر اس گروہ سے منسلک لوگ آپس میں بانٹتے رہے۔ اس وقت سیشن جج لاہور اسکی انکوائری کر رہے ہیں اور ریکارڈ طلب کیا جا رہا تھا جبکہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال بھی جاری تھی کہ سول کورٹس کی مذکورہ عدالتوں میں آگ لگ گئی جن عدالتوں میں جاری مقدمات میں یہ فراڈ ہوا تھا۔ اس جعل سازی کے ذریعے درجنوں بزرگ شہری کوڑی کوڑی کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں کے دوران کاروائی مقدمہ جن مدعا الیہان کا انتقال ہو چکا ہے ان کے ورثا مختلف عدالتوں کے مابین شیٹل کاک بنے ہوئے ہیں۔








