آج کی تاریخ

شبو قتل کیس کی سماعت، بان بھارا اور شبہ بھارا گروپ میں جھگڑا، پولیس نے گواہ دھر لیا

بہاولپور (کرائم سیل) تھانہ عباس نگر کی حدود میں دو جرائم پیشہ گروپوںکے درمیان فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے شہباز عرف شبو کیس میں گزشتہ روز ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمے کی پیشی کے بعد احاطہ عدالت میں دونوں گروپوں بان بھارا اور سلیم عرف شبہ بھارا گروپ کے درجنوں افراد کے درمیان شدید لڑائی، پولیس نے موقع پر سے ایک گروپ میں سے سانول اور دوسرے گروپ میں سے سلیم بھارہ کو گرفتار کر لیا۔ عدالت کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کی جانب سے ملزمان کے ایک گروپ کی ایما پر مدعیوں اور گواہوں کو بےجا ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ گواہ کو بے قصور کینٹ پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ ایس ایچ او کینٹ نےتصدیق کے بعد گواہ محمد سلیم کو رہا کر دیا جبکہ مدعی مقدمہ محمد منیر نےڈی پی او بہاولپور سے زیادتی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف انکوائری کروانے کا مطالبہ کردیا۔ تفصیلات کے مطابق تھانہ عباس نگر کے مقدمہ نمبر 372/23 بجرم 302 کے مدعی محمد منیر نے روزنامہ قوم کو بتایا کہ گزشتہ روز عدالت میں گواہوں کے بیانات قلم بند ہونے تھے پیشی کے بعد جب ہم لوگ کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو احاطہ عدالت میں ہی ملزمان کے دونوں گروپوں بان بھار ااور سلیم بھار ا کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی شور شرابے پر پولیس بھی موقع پر ا ٓگئی جس پر دونوں گروپوں میں سے ایک ایک فرد کو گرفتار کر لیا گیا اس موقع پر مدعی مقدمہ اور گواہ محمد سلیم بھی موجود تھے جبکہ ایک ملزم گروپ کی ایماء پر عدالتی سکیورٹی پرماموراہلکاروں کی جانب سے مدعی مقدمہ اور گواہوں کو ہراساں کیا جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ مدعی مقدمہ کے مطابق پولیس نے ہمیں گالیاں بھی دیںاور میرے گواہ کو پکڑ کر تھانہ کینٹ کے حوالے کر دیا حالانکہ ہم لڑائی میں شامل نہ تھے دونوں گروپوں کی آپسی لڑائی ہوئی ہے تمام تر حالات بتائے تو ایس ایچ او کینٹ نے گواہ محمد سلیم کو چھوڑ دیا جبکہ دونوں گروپوں کے گرفتار افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ مدعی نے ڈی پی او بہاولپور سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں ہراساں کرنے اور بے جا گرفتار کروانے پر عدالتی سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف انکوائری کروائی جائے اور قصور واروں کو سزا دی جائے۔ یاد رہے کہ 2023 میں نو محرم کو انہی دونوں گروپوں کی جانب سے گد پورہ کے قبرستان میں آمنے سامنے فائرنگ میں بے قصور شہباز عرف شبو ہلاک ہو گیا تھا ۔دونوں گروپوں کے درمیان آپسی پرانی دشمنی چل رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی اسی وجہ سے لڑائی ہوئی جس میں شدید نقصان کا اندیشہ تھا مگر پولیس نے حالات کو کنٹرول کرلیا۔ اس سلسلے میں محکمہ پولیس کا موقف جاننے کے لیے متعدد بار ترجمان پولیس سے رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے نہ کال اٹینڈ کی اور نہ ہی میسج کا جواب دیا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں