ملتان ( وقائع نگار) سہولت کاری پر مبنی تفتیش کی بنیاد پر زکریا یونیورسٹی فاریسٹری ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈاکٹر شازیہ جو درخواست دینے کے بعد سے اب تک غائب ہیں اور کسی بھی فورم پر جواب نہیں دے رہی کی طرف سے بھی تفتیش میں عدم تعاون دیکھنے میں آیا۔ بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر شازیہ افضل نکاح کے بعد ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے باقاعدگی سے ڈاکٹر احسان قادر کو ان کی ڈیمانڈ پر آن لائن رقوم بھی ٹرانسفر کیا کرتی تھیں جن کے تمام تر ثبوت ان کے پاس موجود ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ کے قریبی لوگوں کی طرف سے ڈاکٹر شازیہ افضل کے بھائی اور بہنوئی پر ڈالا جانے والا شدید دباؤ کام دکھا گیا اور اعلانیہ نکاح کے باوجود ڈاکٹر بھابھہ کی طرف سے مسلسل رکاوٹوں کے باعث اپنی شادی کو سامنے نہ لا سکیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس ضمانت کے باوجود مقدمہ کی کارروائی جاری رہے گی۔قبل ازیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج حیدر علی خان نے وکلاء کے دلائل سنیں اور ملزم کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔ جس سے کیس میں ایک اہم موڑ آ گیا ہے۔ڈاکٹر احسان قادر کی ضمانت کی درخواست ان کے وکلاء ایڈووکیٹ عمر حیات اور یاسر کھاکھی نے پیش کی تھی۔ عدالت میں وکلاء نے استدلال کیا کہ ملزم کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں اور انہیں انصاف کے تقاضوں کے مطابق ضمانت دینے کا حق ہے۔ دوسری جانب استغاثہ نے مخالفت کی مگر جج نے دلائل کے بعد ضمانت کی منظوری دے دی۔ ملزم کو ضمانت کے لیے دو لاکھ روپے کا مچلکہ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔یہ کیس بی زیڈ یو فارسٹری ڈیپارٹمنٹ کی پروفیسر ڈاکٹر شا زیہ افضل کی طرف سے درج کیا گیا تھا، جنہوں نے اپنے سابق ڈیپارٹمنٹ ہیڈ ڈاکٹر احسان قادر پر زنا بالجبر، جسمانی تشدد، ہراسانی اور موت کی دھمکیوں کا الزام لگایا تھا۔ واقعہ مبینہ طور پر 25 ستمبر 2025 کو ڈاکٹر احسان قادر کے آفس میں پیش آیا، جس کے بعد ڈاکٹر شازیہ نے تھانہ ڈی ایچ اے ملتان میں مقدمہ نمبر 490/25 زیرِ سیکشن 376 پاکستان پینل کوڈ کے تحت درج کروایا۔واقعے کے فوراً بعدبی زیڈ یو انتظامیہ نے کارروائی کرتے ہوئے ڈاکٹر احسان قادر کو ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا اور یونیورسٹی ایکٹ 1975 اور ترمیمی ایکٹ 2012 کے تحت انہیں معطل کر دیا۔ ملزم کو 1 اکتوبر 2025 کو ڈی ایچ اے پولیس نے گرفتار کیا تھا، جبکہ 5 اکتوبر کو عدالت نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔یہ کیس یونیورسٹی کیمپس میں تنازعات کا باعث بن چکا ہے، جہاں سوشل میڈیا پر دونوں فریقین کے حامیوں کے درمیان شدید بحث چل رہی ہے۔ ڈاکٹر شازیہ افضل کو کئی حلقوں سے حمایت مل رہی ہےجبکہ ملزم کے حامی انہیں بے قصور قرار دے رہے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے اندرونی کمیٹی تشکیل دی ہےمگر پولیس تحقیقات جاری ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیس تعلیمی اداروں میں خواتین کی حفاظت اور ہراسانی کے خلاف قوانین کی سختی سے عمل درآمد کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے استغاثہ کی جانب سے اپیل کی توقع کی جا رہی ہےجبکہ ملزم کی رہائی سے کیس کی مزید سماعت میں تاخیر کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق ڈاکٹر احسان قادر کی ضمانت میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر ہوئی ہے جبکہ ابھی تک ملتان پولیس کے ذرائع کے مطابق پنجاب فرانزک لیبارٹری کی رپورٹ سرکاری طور پر پولیس کو موصول نہیں ہوئی جو سر بمہر ہوتی ہے۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شازیہ افضل کے جسم پر تشدد کے نشانات تو تھے مگر آبروریزی کے مقدمے کا حتمی فیصلہ فرانزک رپورٹ کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عدالت کے روبرو ڈاکٹر شازیہ افضل کے وکیل نے بھی بہت مضبوط دلائل دیئے۔ کمزور میڈیکل رپورٹ ڈاکٹر قادر کی ضمانت کا باعث بنی جبکہ کیس کی کارروائی جاری رہے گی۔








