ملتان (سٹاف رپورٹر) پرائمری سکولوں میں تفریحی ٹوورز، ثقافتی پروگرامز اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کی آڑ میں ہر ڈیڑھ دو مہینے بعد پیسے بٹورنے کا رواج ترقی کرتے کرتے اعلیٰ تعلیمی اداروں، نجی و سرکاری یونیورسٹیوں تک بھی پہنچ چکا ہے اور سرکاری یونیورسٹیوں کے غریب طلبا و طالبات پر ایک اضافی بوجھ ڈالا جا رہا ہے اور باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت تقریبات کے نام پر ان سے جبری پیسے وصول کیے جاتے ہیں اور جو غریب طلبا و طالبات پیسے نہ دے سکیں ان کو باقاعدہ طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پنجاب بھر کی چند نجی یونیورسٹیوں کے مالکان اور سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات نے ایک دن میں کروڑوں روپے کمائی کا یہ ایک نیا طریقہ سکولوں سے سیکھ لیا جس میں مختلف غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر مختلف فنکشنز بشمول قوالی نائٹس، بوفے، بار بی کیو کا برائے نام اہتمام کر کے ٹیچرز، سٹاف اور طلبا و طالبات کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ فنکشن کی مد میں بھاری پیسہ یونیورسٹی میں جمع کروائیں اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ ان پیسوں کا کسی بھی قسم کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا بلکہ اکثر اوقات بہت سے سٹالز اور فنکشنز مختلف کمپنیوں سے سپانسر کروا لیے جاتے ہیں جو تعلیمی اداروں کو مفت میں پڑتے ہیں اور ان کے اشتہاری بینرز لگوا کر یہ پیسے بھی بندر بانٹ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک یونیورسٹی نے بھی اب یہی باریک واردات ڈالنے کا پروگرام بنا لیا ہے جس کی زور و شور سے تیاریاں جاری ہیں۔جس کے تحت اسی مہینے میں ایک شاندار گرینڈ گالا کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں تمام فیکلٹی ممبران کی شرکت لازمی قرار دی گئی ہے۔ تقریب کے لیے تین اقسام کی ٹکٹیں جاری کی گئی ہیں۔ ریگولر ایگزیکٹو ٹکٹ کی قیمت 3000 روپے مقرر کی گئی ہےجس میں لذیذ بوفے ڈنر، لائیو باربی کیو، قوالی نائٹ کے لیے خصوصی نشستیں اور مختلف تفریحی پروگرام شامل ہیں۔ وی آئی پی ٹکٹ 5000 روپے میں دستیاب ہے، جس میں خصوصی نشستوں کے علاوہ یادگاری تحفہ (Souvenir) بھی پیش کیا جائے گا۔ یونیورسٹی ریکارڈ کے مطابق تقریباً 250 ٹیچرز اور ایگزیکٹو سٹاف موجود ہیں جن میں 50 کے قریب وی آئی پی ٹکٹس جبکہ 200 کے قریب ایگزیکٹو ٹکٹس ٹیچرز کو فروخت ہوں گی اور ایگزیکٹو ٹکٹس سے 6 لاکھ جبکہ وی آئی پی ٹکٹس سے 2 لاکھ 50 ہزار کی آمدن کا ٹارگٹ طے کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی ریکارڈ کے مطابق 8000 سٹوڈنٹس میں سے بہت کم سٹوڈنٹس کی آمد متوقع تھی کیونکہ 1500 روپے فی سٹوڈنٹ ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ پھر بھی وائس چانسلر کی جانب سے دی گئی ہدایات کے مطابق ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس کو سختی سے اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ تمام سٹوڈنٹس کی حاضری اور سٹوڈنٹس کو سختی کے ساتھ ٹکٹس کی فروخت کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنائیں۔ جس میں اگر 8000 سٹوڈنٹس کی شرکت یقینی بنائی جائے تو یہ رقم تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے ۔اس کے علاوہ پوری یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس میں ہر ڈیپارٹمنٹ کو 5 سٹالز لگانے کا پابند بنایا گیا ہے جس میں تقریباً 150 سٹالز متوقع ہیں جن سے 1000 فی سٹال کے حساب سے ڈیڑھ لاکھ کی آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ تمام سٹالز والے سٹوڈنٹس کو انتظامیہ کی جانب سے اس بات کا بھی پابند بنایا جا رہا ہے کہ جو بھی منافع ہو گا اس کا نصف نقد پیسوں کی صورت میں یونیورسٹی انتظامیہ کو جمع کروانا ہو گا۔ جس پر سٹوڈنٹس نے شدید رد عمل دیتے ہوئے نہایت افسوس کا اظہار کیا ہے۔ روزنامہ قوم کی طرف سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق ان تمام تقریبات کی آڑ میں ٹیچرز اور سٹاف سے حاصل ہونے والی انکم ملا کر تقریباً 1 کروڑ 30 لاکھ کے علاوہ سٹالز پر فروخت ہونے والی اشیا سے 20 لاکھ کے قریب آمدن متوقع ہے جس سے ایک فنکشن پر 1 کروڑ 50 لاکھ آمدن کے علاوہ سپانسر شپ کی مد میں بھی لاکھوں روپے کی آمدن متوقع ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق اساتذہ کے لیے یہ موقع نہ صرف تفریح فراہم کرے گا بلکہ باہمی ہم آہنگی اور ادارہ جاتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مدد دے گا۔ ٹکٹوں کی فروخت کا عمل جاری ہے اور فیکلٹی ممبران متعلقہ منتظمین سے رابطہ کر کے زبردستی ٹکٹیں فروخت کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کے حوالے سے فیکلٹی ممبران اور سٹاف کا موقف ہے کہ ان کے لیے اپنی تنخواہوں سے 3000 نکالنا اس مہنگائی کے دور میں نہایت مشکل ہے کیونکہ گزشتہ سال بھی اسی طرح منعقد ہونے والے فنکشن میں بھی ٹیچرز اور سٹاف سے زبردستی رقوم اکٹھی کی گئی تھیں۔ یہ شرکت آزادانہ ہونی چاہیے، زبردستی رقوم اکٹھی کرنا انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے۔ سٹوڈنٹس کا اس حوالے سے موقف ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں وائس چانسلر کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہم سے زبردستی 1500 روپے جتنی رقم اکٹھی کرنا سراسر زیادتی ہے۔ ہمارے والدین جتنی مشکل سے ہمیں پڑھا رہے ہیں اس کا انتظامیہ کو کسی صورت احساس ہی نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وائس چانسلر اس یونیورسٹی میں عارضی تعینات ہیں اور ریگولر وائس چانسلر کے لیے امیدوار بھی ہیں جس کے امکانات واضح طور پر کم ہیں کیونکہ ان کے خلاف ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں متعدد انکوائریاں چل رہی ہیں اس لیے انہوں نے ہر شعبہ میں کھل کر لوٹ مار اور ہیر پھیر شروع کر رکھی ہے اور یہ تقریب بھی اسی لوٹ مار کا ایک منظم منصوبہ ہے۔








