آج کی تاریخ

تھر کوئلہ، تاخیر اور تکرار

پاکستان جیسے توانائی کے بحران میں گھرے ملک میں اگر کوئی منصوبہ مستقبل کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے تو وہ ہے مقامی ذرائع، خصوصاً تھر کوئلے، سے بجلی کی پیداوار کی طرف منتقلی۔ مگر بدقسمتی سے، اس منزل تک پہنچنے کا سفر بھی بیوروکریسی کی سستی، ادارہ جاتی عدم تعاون، اور مسلسل تاخیری حربوں کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ صورتحال میں K-Electric اور پاور ڈویژن کے درمیان جاری خط و کتابت اس حقیقت کی عکاسی کر رہی ہے کہ ملک میں نہ صرف پالیسی سازی کا عمل کمزور ہے بلکہ اس پر عملدرآمد کا میکنزم بھی بے جان ہوتا جا رہا ہے۔ جامشورو پاور پلانٹ کو تھر کوئلہ پر منتقل کرنے کا منصوبہ کئی ماہ سے محض کاغذی کارروائیوں کی نذر ہے، اور دونوں فریق ایک دوسرے پر تاخیر کی ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
K-Electric کا کہنا ہے کہ انہوں نے بینک ایبل فزیبلٹی اسٹڈی کے لیے کنسلٹنٹ کا تقرر کر دیا ہے، جو پاور ڈویژن کی قائم کردہ کمیٹی کی سفارش پر ہوا۔ مگر پاور ڈویژن کی جانب سے نگرانی کمیٹی کی از سر نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کے باعث منصوبے میں عملی پیش رفت ممکن نہیں ہو پا رہی۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے متعدد اہم امور جیسے اسٹیٹ بینک سے فارن ری مٹنس کی منظوری، پاکستان ریلوے سے لاجسٹکس اور ماحولیاتی ڈیٹا کی فراہمی، اور تھر کوئلہ بورڈ سے نرخوں اور دستیابی کی تفصیلات بھی تاحال مکمل نہیں ہو سکیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس عمل میں وفاقی سطح پر جو چار اجلاس منعقد ہو چکے ہیں، ان کی کاروائیوں کی حتمی منظوری بھی ابھی تک التوا کا شکار ہے، جو کہ نہ صرف منصوبے کی ساکھ بلکہ اداروں کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔
یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ پاکستان کی توانائی کی معیشت اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ درآمدی ایندھن پر انحصار، بڑھتے ہوئے ٹیرف، اور صارفین پر مالی بوجھ کے تناظر میں، تھر کوئلہ جیسے مقامی وسائل کا استعمال اب اختیار نہیں بلکہ ضرورت بن چکا ہے۔ مگر جب اتنے اہم منصوبے کو ادارہ جاتی تاخیر اور بین الوزارتی ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے آگے نہیں بڑھایا جا سکتا، تو یہ صرف ایک منصوبے کی ناکامی نہیں بلکہ پالیسی کے پورے ماڈل کی ناکامی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب کنسلٹنٹس تعینات ہو چکے، دستاویزات تیار ہو چکیں، اور اجلاس ہو چکے، تو محض ایک نوٹیفکیشن یا منظوری میں تاخیر کی وجہ سے پورا منصوبہ جمود کا شکار کیوں ہو؟ کیا ہماری انتظامیہ اس قدر بوجھل، غیر سنجیدہ اور ناہموار ہو چکی ہے کہ وہ ملکی مفاد کے حامل منصوبوں میں بھی پیش قدمی نہیں کر سکتی؟
ایسے وقت میں جب ملک کے صنعتی شعبے بجلی کے عدم استحکام کی وجہ سے دباؤ میں ہیں، اور صارفین مہنگی توانائی سے پریشان ہیں، اس قسم کی تاخیر صرف ادارہ جاتی کوتاہی نہیں بلکہ قومی مفاد سے غداری کے مترادف ہے۔ K-Electric کی جانب سے بارہا یاددہانی، خطوط، اور تجاویز کے باوجود، اگر پاور ڈویژن فزیبلٹی اسٹڈی کی راہ میں رکاوٹ بنے بیٹھا ہے تو یہ نہ صرف بدانتظامی ہے بلکہ غفلت کا کھلا اظہار ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ وزارت توانائی، اس منصوبے کو محض کاغذی فائلوں میں دفن نہ کرے بلکہ تمام رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کر کے جامشورو پاور پلانٹ کو تھر کوئلہ پر منتقل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
تھر کوئلہ، جو پاکستان کی توانائی خود کفالت کی سب سے بڑی امید بن کر ابھرا ہے، اس کی راہ میں یہ نوکر شاہی تاخیر ملکی ترقی کو بریک لگانے کے مترادف ہے۔ ہمیں اداروں میں ہم آہنگی، منصوبہ بندی میں شفافیت، اور عملدرآمد میں تیزی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ان نکات پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ تاخیر مستقبل میں نہ صرف مالی نقصانات بلکہ ملک کی توانائی پالیسی پر اعتماد کے فقدان کا سبب بنے گی۔ اور جب اعتماد ٹوٹتا ہے تو سرمایہ کاری رُک جاتی ہے، ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے، اور عوامی فلاح کا خواب خواب ہی رہ جاتا ہے۔

انصاف کب ملے گا؟

انصاف کب ملے گا؟
بلوچستان کے ضلع قلات میں افطاری کے وقت ہونے والی بربریت نے ایک بار پھر اس زخم کو تازہ کر دیا ہے جو برسوں سے اس سرزمین کے سینے پر رِس رہا ہے۔ صادق آباد، پنجاب سے تعلق رکھنے والے چار نہتے، بے گناہ مزدور جو صرف اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے بلوچستان کے علاقے خالق آباد منگچر میں ایک ٹیوب ویل پر محنت مزدوری کر رہے تھے، سائیکل سوار نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ یہ لوگ نہ سیاست سے وابستہ تھے، نہ کسی تنازعے کا حصہ تھے، نہ کسی جنگ کا ایندھن تھے، بلکہ وہ تو وہ لوگ تھے جن کے ہاتھوں میں ہتھیار نہیں، کدال اور بیلچے تھے۔ وہ اپنے پسینے سے زمین کا سینہ چیر کر پانی نکالنے آئے تھے، مگر اس زمین نے ان کے جسموں کو خون میں نہلا دیا۔
یہ واقعہ صرف چند افراد کا قتل نہیں، بلکہ یہ انسانی حرمت، بین الصوبائی ہم آہنگی اور قومی وحدت پر حملہ ہے۔ جب ریاست کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو شناخت کی بنیاد پر قتل کیا جاتا ہے اور قاتل آرام سے فرار ہو جاتے ہیں، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امن و امان صرف کتابوں میں درج ایک باب بن چکا ہے، حقیقت کی دنیا میں اس کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں محنت کشوں پر حملے کب رکیں گے؟ اس سے پہلے بھی متعدد بار ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ سے آئے ہوئے مزدوروں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا، مگر تاحال کوئی سنجیدہ لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ کیا ان مزدوروں کا خون اتنا سستا ہے کہ ایک بیان، ایک تعزیت، اور ایک لاش واپس بھیج دینے سے ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے؟
بلوچستان میں برسوں سے جاری بدامنی نے اس خوبصورت مگر زخمی خطے کو ایک ایسا علاقہ بنا دیا ہے جہاں زندگی روز ایک امتحان ہے۔ نہ صرف مقامی لوگ بلکہ دیگر صوبوں سے آئے ہوئے مزدور بھی غیر محفوظ ہیں۔ جس انداز میں ان مزدوروں کو افطاری کے وقت نشانہ بنایا گیا، وہ دہشتگردی کی بزدلانہ ترین شکل ہے۔ قاتلوں نے نہ صرف انسانوں کو قتل کیا بلکہ ایک مزدور کے گھر کے چولہے کو بجھا دیا، ایک ماں کی اُمید کو، ایک بچے کی آنکھوں سے مسکراہٹ کو، اور ایک باپ کے کاندھوں سے عزت کی چادر کو چھین لیا۔ جب میتیں صادق آباد پہنچیں، تو وہاں کہرام مچ گیا۔ پورا علاقہ غم، بے بسی اور غصے کی تصویر بن چکا تھا۔ وہ لاشیں صرف مزدوروں کی نہیں تھیں، وہ ہماری اجتماعی بے حسی کی گواہی دے رہی تھیں۔
یہ وہ لمحہ ہے جب ریاست کو صرف بیانات سے آگے بڑھنا ہو گا۔ مذمت کرنا کافی نہیں، مجرموں کو انجام تک پہنچانا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ بلوچستان کی پسماندگی اور دہشتگردی کا حل صرف ترقیاتی منصوبے نہیں، بلکہ اعتماد، تحفظ اور انصاف ہے۔ اگر وفاقی حکومت اور سیکیورٹی ادارے واقعی بلوچستان کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے وہاں امن قائم کرنا ہو گا۔ ان محنت کشوں کو تحفظ دینا ہو گا جو غربت سے لڑتے ہوئے اپنی جان کی بازی ہار دیتے ہیں۔ ان مزدوروں کی جانوں کا سودا سیاسی مفاہمت یا علاقائی مصلحتوں کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو ریاست اپنے کمزور ترین شہریوں کو تحفظ نہیں دے سکتی، وہ ریاست اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھتی ہے۔ یہ محض چار لاشیں نہیں تھیں، یہ چار خاندانوں کے خواب، چار ماؤں کے بیٹے، چار بچوں کے سہارے، اور ایک پورے معاشرے کا آئینہ تھے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی، تو یہ خاموشی صرف بزدلی نہیں بلکہ شراکتِ جرم کے زمرے میں آئے گی۔ قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا صرف مقتولین کے لواحقین کا مطالبہ نہیں بلکہ پوری قوم کا امتحان ہے۔ بلوچستان کے عوام کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ وہ اکیلے نہیں، اور پنجاب کے غریب مزدوروں کو یہ یقین دینا ہو گا کہ ان کے خون کا حساب ضرور لیا جائے گا۔
ہمیں ایک ایسے ملک کی بنیاد رکھنی ہے جہاں کسی مزدور، کسی کسان، کسی طالب علم یا کسی معصوم شہری کو صرف اس کے شناختی کارڈ، زبان یا صوبے کی بنیاد پر موت کے گھاٹ نہ اتارا جائے۔ ہمیں بین الصوبائی بھائی چارے، مذہبی ہم آہنگی، اور قومی اتحاد کو محض تقاریر سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ثابت کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر، یہ خلیج بڑھتی جائے گی، اور ہم سب اس کا شکار بنیں گے — ایک ایک کر کے۔

ایل پی جی باؤزر دھماکہ – خاموش ادارے، بے رحم مافیا

ملتان میں ایل پی جی باؤزر دھماکے کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، مگر سانحے کی تحقیقات اب تک نہ مکمل ہو سکی ہیں اور نہ ہی اس سمت میں کوئی سنجیدہ پیش رفت دکھائی دیتی ہے۔ جتنی دیر گزر رہی ہے، اتنے ہی سوالات جنم لیتے جا رہے ہیں — آخر کس کی پشت پناہی ہے جو اس المیے کو بھی معمول کی فائل بنا کر دفن کرنے پر تُلی ہوئی ہے؟ اگر یہ صرف ایک حادثہ ہوتا تو شاید وقت کے ساتھ صدمہ کم ہو جاتا، مگر جب حادثے کے تانے بانے محکموں کی نااہلی، افسران کی مجرمانہ غفلت اور مافیا کی پشت پناہی سے جا ملیں، تو خاموشی بذات خود ایک جرم بن جاتی ہے۔
اس واقعے میں اصل المیہ یہ نہیں کہ باؤزر پھٹ گیا، بلکہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے جو کرپٹ نیٹ ورک کام کر رہا تھا، وہ اب بھی سلامت ہے۔ سول ڈیفنس جیسا ادارہ، جو شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے بنایا گیا، اسی نے خود سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ رپورٹوں کے مطابق رانا طارق، جو اس وقت ملتان سول ڈیفنس کے ضلعی سربراہ تھے، نہ صرف باؤزرز کی غیر قانونی نقل و حمل سے آگاہ تھے بلکہ انہیں روکنے کے بجائے آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے۔ ان کی سربراہی میں وہ تمام غیر قانونی سرگرمیاں جاری رہیں جو بالآخر اس ہولناک دھماکے کا سبب بنیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ رانا طارق کو صرف معطل کیا گیا ہے، مگر انکوائری کمیٹی کی تشکیل کے باوجود تحقیقات شروع ہی نہیں ہونے دی جا رہیں۔ اس میں مزید شرمناک پہلو یہ ہے کہ رانا طارق کو کمیٹی سے الگ کرنے کا اعلان تو کیا گیا، مگر وہ تاحال پس پردہ اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔
جہاں ایک طرف رانا طارق جیسے افسران کا ذکر آتا ہے، وہیں اس سارے کھیل میں فاطمہ خان کا کردار بھی کم مشکوک نہیں۔ پہلے انہیں ایک دیانتدار افسر کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، لیکن شواہد یہ بتاتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں بھی سول ڈیفنس کے معاملات میں بہتری کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوا۔ ان کے دور میں بھی ایل پی جی باؤزرز کی غیرقانونی آمد و رفت جاری رہی، اور مبینہ طور پر وہ خود بھی سہولت کاری میں کسی نہ کسی سطح پر ملوث پائی گئیں۔ ان کی معطلی کے بعد بھی معاملہ دبانے کی کوششیں کی جاتی رہیں، اور بااثر حلقوں کی مدد سے وہ اپنا تبادلہ واپس ملتان کرانے میں کامیاب ہو گئیں، جہاں اب ایک بار پھر وہ کسی انکوائری سے بچنے کے لیے راہیں نکال رہی ہیں۔ اگر سچ جاننے کی جستجو ہو، تو یہ سوال اٹھانا ضروری ہو جاتا ہے کہ کیا ان تمام تبادلوں، معطلیوں اور بحالیوں کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی موجود ہے؟ کیا یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ اصل مجرم قانون کے شکنجے سے بچ نکلیں؟
روزنامہ قوم ملتان نے اس پورے معاملے پر جس جرأت اور سچائی سے رپورٹنگ کی ہے، وہ قابلِ تحسین ہے۔ ان کی رپورٹوں نے نہ صرف اس المیے کے پس منظر کو آشکار کیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ ہمارے ریاستی ادارے محض خانہ پُری کرنے والے ادارے بن چکے ہیں۔ جب کوئی دھماکہ ہوتا ہے، جانیں ضائع ہوتی ہیں، تو محض چند بیانات، کچھ معطلیاں، اور پھر مکمل خاموشی — یہی ہمارا طرزِ عمل بن چکا ہے۔ اس خاموشی کا فائدہ ہمیشہ مافیا کو ہی ہوتا ہے، جن کی جڑیں نہ صرف محکمانہ نظام میں پیوستہ ہیں، بلکہ وہ افسران کی پشت پر کھڑے ہو کر ہر جرم کو قانونی جواز پہ پہنا دیتے ہیں۔
یہ سوال اب محض صحافیوں یا متاثرین کا نہیں، بلکہ ہر شہری کا ہے: اگر تحقیقات نہیں ہو سکتیں، اگر ذمہ داروں کو سزا نہیں دی جا سکتی، تو پھر ریاست کس بات کی؟ اگر ایک عام شہری کی جان کی قیمت چند دستاویزات اور دفتری چالاکیوں میں گم ہو جائے، تو پھر وہ کس در پر جائے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں مزید کسی دھماکے کا انتظار ہے؟ مزید لاشوں کا؟ یا مزید شہروں کی تباہی کا؟
ریاستی اداروں کو اب یہ سمجھنا ہو گا کہ عوام کی خاموشی ان کی رضامندی نہیں ہے، بلکہ ان کا اعتماد صرف وقتی مصلحت کے تحت باقی ہے۔ اگر یہ اعتماد ٹوٹا، تو وہ صرف اداروں پر سے نہیں، بلکہ پورے ریاستی ڈھانچے پر سے اُٹھ جائے گا۔ اس لیے اب وقت آ چکا ہے کہ رانا طارق، فاطمہ خان اور دیگر تمام ملوث افراد کو نہ صرف ان کے عہدوں سے برخاست کیا جائے، بلکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے۔ انکوائری کو صرف ایک رسمی کارروائی نہیں بلکہ حقیقی انصاف کی شکل میں مکمل کیا جائے۔ ہر وہ شخص جو اس نظام کو نقصان پہنچا رہا ہے، خواہ وہ کسی بھی عہدے پر ہو، اس کا محاسبہ ناگزیر ہے۔
ملتان کا یہ سانحہ صرف ایک شہر کا نہیں، پورے نظام کا المیہ ہے۔ اگر ہم نے اس سے سبق نہ سیکھا، تو یہ المیہ جلد ہی کسی اور شہر میں، کسی اور شکل میں دوبارہ جنم لے گا۔ لیکن اگر آج ہم نے سچ کا ساتھ دیا، میڈیا کی آواز کو مضبوط بنایا، اور انصاف کی مانگ کو اجتماعی آواز میں بدلا، تو شاید ہم آنے والے کسی سانحے کو روک سکیں۔ خاموشی اب جرم ہے، اور سوال اٹھانا فرض۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایسے سانحات میں صرف سرکاری اہلکار ہی نہیں بلکہ نجی شعبے میں کام کرنے والے وہ لوگ بھی برابر کے شریک جرم ہوتے ہیں جو مفادات کے حصول کے لیے ہر قانون اور ضابطے کو روندتے چلے جاتے ہیں۔ ایل پی جی باؤزرز کے معاملے میں بھی یہی دیکھا گیا کہ کنٹریکٹرز، ٹرانسپورٹرز، اور فیکٹری مالکان کی ملی بھگت سے غیر معیاری، ناقص اور ناقابلِ اعتماد باؤزرز کو شہروں میں داخل ہونے دیا گیا۔ ان باؤزرز کی نہ مناسب چیکنگ کی گئی، نہ ہی کسی حفاظتی معیار کا اطلاق کیا گیا، اور اگر کہیں کسی نے زبان کھولی تو یا تو اسے نظرانداز کر دیا گیا یا پھر اس کی پوسٹنگ ایسی جگہ منتقل کر دی گئی جہاں اس کی آواز کوئی نہ سن سکے۔ یہ سب کچھ صرف نااہلی کا نتیجہ نہیں بلکہ دانستہ چشم پوشی، مالی مفادات، اور کرپشن کی وہ زنجیریں ہیں جو ایک نظام کو مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیتی ہیں۔
اس واقعے سے جڑی ہوئی ایک اور قابلِ افسوس حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں احتساب کا عمل صرف نچلی سطح پر رُک جاتا ہے۔ وہ افسر جو کرپشن کا حکم دیتا ہے، وہ تو بچ نکلتا ہے، اور وہ چھوٹے ملازم جو اس پر عمل کرتا ہے، وہ قربانی کا بکرا بن جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف ناانصافی کو فروغ دیتا ہے بلکہ اداروں میں موجود ایماندار اور نڈر افراد کی حوصلہ شکنی کا بھی سبب بنتا ہے۔ جب تک احتساب کا دائرہ مکمل طور پر اوپر سے نیچے تک نہ پھیلے، اور ہر فرد — چاہے وہ اعلیٰ افسر ہو یا نچلا ملازم — قانون کے سامنے برابر جواب دہ نہ ہو، تب تک کوئی اصلاح ممکن نہیں۔ رانا طارق یا فاطمہ خان کو قربانی کا بکرا بنا دینا کافی نہیں ہوگا؛ ان تمام کرداروں کو سامنے لانا ہوگا جو پردے کے پیچھے اس نظام کو چلا رہے ہیں۔
یہ سانحہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر ایک باؤزر بغیر کسی چیکنگ کے شہری حدود میں داخل ہو کر انسانی زندگیوں کو نگل سکتا ہے، تو کل کلاں کوئی اور کیمیکل، کوئی اور دھماکہ خیز مواد، کسی اور شہر میں کیا قیامت نہ برپا کرے گا؟ ہمارے ہاں نہ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے اس حوالے سے غیر سنجیدہ ہیں بلکہ پالیسی سازی کا عمل بھی اتنا سست اور پیچیدہ ہے کہ جب تک کوئی بڑا دھماکہ نہ ہو، قانون کو حرکت میں لانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس المیے کے بعد اگر پارلیمانی سطح پر کوئی تحریک، کوئی بل یا کوئی نیا ضابطہ عمل میں نہیں آیا، تو یہ ایک اجتماعی ناکامی ہو گی، جو ہمیں آنے والے کئی برسوں تک یاد دلاتی رہے گی کہ ہم نے ایک موقع ضائع کر دیا تھا۔
پریشان کُن امر یہ بھی ہے کہ بظاہر چند معطلیوں اور کاغذی کمیٹیوں کے سوا، ابھی تک کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آ رہا جو اس سانحے سے سبق سیکھنے کی نیت کو ظاہر کرتا ہو۔ کیا انکوائری رپورٹ عوام کے سامنے لائی جائے گی؟ کیا ملوث افسران کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہوں گے؟ کیا ان باؤزرز کو رجسٹرڈ کرنے، ان کی نگرانی کرنے اور ان کی نقل و حرکت پر چیک رکھنے کے لیے کوئی جدید ڈیجیٹل نظام متعارف کرایا جائے گا؟ فی الحال ان سب سوالات کا جواب ایک گہری خاموشی میں چھپا ہوا ہے، جو نہ صرف اذیت ناک ہے بلکہ خطرناک بھی۔
میڈیا، بالخصوص مقامی صحافت، نے اس پورے معاملے میں جو کردار ادا کیا، وہ قابلِ ستائش ہے۔ روزنامہ قوم نے وہ کام کیا جو اصل میں حکومتی ترجمانوں اور محکموں کے افسران کو کرنا چاہیے تھا۔ ان کے ذریعے عوام کو اصل حقائق سے آگاہی ملی، اور وہ چہرے بے نقاب ہوئے جو وردی، عہدے اور اختیار کے نقاب میں چھپے ہوئے تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود اگر کارروائی نہ ہو، تو یہ صحافتی کوششیں صرف کاغذی تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائیں گی۔ یہی وقت ہے کہ ریاست ان آوازوں کو سنے، ان کی روشنی میں پالیسی بنائے، اور محض زبانی دعووں کے بجائے عملی اقدامات کرے۔
ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ جو ادارے اندر سے بوسیدہ ہو چکے ہوں، انہیں بیرونی دباؤ یا حادثاتی ردعمل سے درست نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں اندر سے ہی بدلنا پڑتا ہے۔ ہمیں سول ڈیفنس جیسے محکمے میں نہ صرف سخت احتسابی نظام لانا ہو گا بلکہ ایسے افسران کو بھی تعینات کرنا ہوگا جو پیشہ ورانہ دیانت، فرض شناسی اور شفافیت کے ساتھ کام کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان افسران کے تربیتی معیار، ان کی فیلڈ میں موجودگی، اور ان کے کام کی نگرانی کا ایک مستقل نظام تشکیل دینا ہو گا تاکہ آئندہ اس قسم کی مجرمانہ لاپرواہی نہ دہرائی جا سکے۔
اگر ہم اب بھی خاموش رہے، اور اگر انکوائریاں محض وقت گزاری اور عوام کو بہلانے کا ذریعہ بن گئیں، تو آنے والے وقت میں صرف ملتان ہی نہیں، کوئی اور شہر، کوئی اور باؤزر، اور کوئی اور خاندان ایک نئے المیے کا شکار ہو سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اجتماعی بیداری کے ساتھ اس مسئلے کو ایک آزمائش نہ سمجھیں بلکہ ایک موقع سمجھ کر تبدیلی کی بنیاد رکھیں۔ کیونکہ یہ دھماکہ صرف باؤزر کا نہیں تھا، یہ ہمارے اعتماد، ہماری امید، اور ہمارے نظام پر ایک دھماکہ تھا۔ اگر ہم نے اب بھی اصلاح نہ کی، تو آئندہ شاید صرف وقت نہیں، تاریخ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں