آج کی تاریخ

بے حسی کا احتساب کون کرے؟

پاکستان میں عدلیہ کا کردار ہمیشہ سے بحث کا مرکز رہا ہے۔ کبھی وہ وقت بھی تھا جب عدالتوں کو طاقتور اداروں کے فیصلوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اور بعض اوقات یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ حکومتوں سے زیادہ اختیار رکھتی ہیں۔ مگر اب، جیسا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں واضح کیا، وہ وقت گزر چکا ہے۔ “ہم حکومتیں چلانے کے لیے نہیں بیٹھے—یہ جملہ نہ صرف عدلیہ کے آئینی دائرہ کار کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ ایک اہم اور تلخ حقیقت کی بھی یاددہانی ہے کہ ریاست کے باقی اداروں کو اب اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ خود اٹھانا ہوگا۔
سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے گئے یہ ریمارکس دراصل موجودہ حالات کی ایک گہری اور دردناک تشریح ہیں۔ جڑانوالہ میں گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے والے عناصر کو گرفتار نہیں کیا گیا، اور اگر گرفتار کیا گیا تو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے شکایت کی کہ تفتیش ناقص رہی، اور اصل ملزمان کو چھوا بھی نہیں گیا۔ ایسے میں جسٹس مندوخیل نے بجا فرمایا کہ “اگر انفرادی شخص غفلت برتے تو الزام نہیں لگایا جا سکتا، مگر یہاں تو پوری اسٹیٹ ملوث دکھائی دیتی ہے۔” یہ ایک جرأت مندانہ اور غیر معمولی تبصرہ ہے، جو عدلیہ کے اندر موجود اس احساس کا اظہار کرتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔
بات صرف اقلیتوں تک محدود نہیں۔ سانحہ جڑانوالہ ہو یا حالیہ ٹرین حملے جیسے دہشت گردی کے واقعات—ریاستی مشینری بار بار ناکام نظر آتی ہے۔ ملزمان گرفتار بھی ہوتے ہیں تو تفتیش کمزور، مقدمات ناقص، اور انجام ضمانت پر رہائی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ عوام کو یہ یقین نہ رہے کہ جرم کے بعد انصاف ممکن ہے۔
عدالتیں، جیسا کہ جسٹس مندوخیل نے واضح کیا، حکومتیں نہیں چلا سکتیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومتیں خود اپنے آئینی و اخلاقی فرائض پورے نہ کریں، جب پولیس، تحقیقاتی ادارے، پراسیکیوشن، اور سیاسی قیادت اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوں، تو عدلیہ کا دائرہ عمل کہاں تک محدود رہنا چاہیے؟ کیا وہ صرف تماشائی بن کر “دائرہ اختیار” کا بہانہ کرتی رہے؟ کیا عدالتیں صرف تب متحرک ہوں گی جب کوئی آئینی درخواست ان کے سامنے پیش کی جائے؟ یا پھر وہ بھی اپنا کردار مزید مؤثر بنائیں، تاکہ وہ کم از کم ان اداروں کو آئینہ دکھا سکیں جو قانون کی روح کو پامال کر رہے ہیں؟
جسٹس مندوخیل نے بھارتی سپریم کورٹ اور پاکستانی سپریم کورٹ کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس میں حکومتی بیانیے کو تقویت دی، جبکہ ہماری عدالت نے 2014 میں ایسا نہیں کیا—یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ عدلیہ کو بعض اوقات ریاستی بیانیے کے دباؤ سے بھی گزرنا پڑتا ہے، اور اس میں استقامت دکھانا ایک کٹھن عمل ہوتا ہے۔ تاہم، اگر پاکستانی عدالتوں نے ماضی میں بعض معاملات پر جرات مندانہ فیصلے کیے ہیں، تو اب بھی ان سے یہی توقع ہے کہ وہ کمزور طبقات، خاص طور پر اقلیتوں، خواتین، اور دہشت گردی سے متاثرہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کریں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حکومت اور اس کے نمائندے بعض اوقات اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو محض عالمی سطح پر “ویوز” حاصل کرنے کی حکمتِ عملی سے جوڑ کر ایک سنگین انسانی مسئلے کو ہلکا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ اقلیتوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ ایسے بیانات سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے، اور داخلی طور پر یہ پیغام جاتا ہے کہ ریاست شاید کچھ طبقات کی جان و مال کے تحفظ کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔
عدالت عظمیٰ نے اس کیس کی سماعت پانچ ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ہے، مگر یہ التوا مسئلے کا حل نہیں۔ عوام کو صرف ریمارکس سے نہیں، بلکہ فیصلوں سے بھی انصاف درکار ہے۔ جب عدالتیں کھلے عام یہ تسلیم کرتی ہیں کہ پورا نظام متاثر ہے، تو یہ محض ایک رائے نہیں، ایک وارننگ ہے۔ اگر اس انتباہ کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا، تو نتائج صرف اقلیتوں کے لیے نہیں، بلکہ پوری ریاست کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ عدالتیں حکومتیں نہیں چلا سکتیں، مگر جب حکومتیں خود اپنے فرائض سے غافل ہو جائیں تو پھر عدالتیں ہی وہ آخری امید بن جاتی ہیں جہاں مظلوم کی صدا سنی جا سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ریاستی ادارے اکثر سیاسی و ذاتی مفادات میں الجھے ہوتے ہیں، عدلیہ کی غیر جانبداری اور جرات مندانہ کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تمام ریاستی ستون—عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ—اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی اصلاح کریں، نہ کہ خاموش تماشائی بنے رہیں۔
کیونکہ اگر عدالتیں خاموش ہو جائیں، حکومتیں مفلوج رہیں، اور عوام مایوس ہو جائیں—تو پھر ریاست کا وجود صرف کاغذوں میں باقی رہ جاتا ہے۔

ایم ڈی اے، لینڈ مافیا اور عوامی اعتماد کا بحران


ملتان جیسے تاریخی اور روحانی ورثے کے حامل شہر میں جہاں کبھی علم، ثقافت اور تہذیب کا بول بالا تھا، آج ایک ایسی کہانی رقم ہو رہی ہے جو المیہ سے کم نہیں۔ روزنامہ قوم ملتان میں شائع ہونے والی حالیہ خبر نے ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے کردار پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ خبر نہ صرف کرپشن کی سنگینی کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ سرکاری ادارے کس طرح خود لینڈ مافیا کے سہولت کار بن چکے ہیں۔ جب ادارے اپنی اصل ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈال کر مفادات کے کھیل میں الجھ جائیں، تو عوامی اعتماد کی بنیادیں ہلنا شروع ہو جاتی ہیں۔
خبر کے مطابق، ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا لیگل ونگ، جو قانون کی بالادستی کا ضامن ہونا چاہیے تھا، آج ایک ایسا نیٹ ورک بن چکا ہے جو غیر قانونی سوسائٹیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لینڈ مافیا کے ساتھ ملی بھگت کے تحت، یہ ادارہ غیر منظور شدہ کالونیوں کو یا تو نظر انداز کرتا ہے، یا ان کے خلاف محض ظاہری کارروائی کر کے اصل مجرموں کو چھوٹ دیتا ہے۔ فائلوں کی منظوری کے نام پر تاخیر، اور ان تاخیروں کے نتیجے میں لینڈ مافیا کو مواقع دینا، دراصل ایک طے شدہ اور منظم کرپشن کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جب کبھی کسی سوسائٹی کے خلاف قانونی کارروائی کی نوبت آتی ہے، تو عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا جاتا ہے۔ یہ حکم صرف وقت گزارنے کا ہتھیار بن چکا ہے، جس کے پیچھے چھپ کر غیر قانونی تعمیرات، پلاٹوں کی فروخت اور اربوں روپے کی لین دین کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عدالتوں میں ان مقدمات کا فیصلہ آنے تک نہ صرف شہریوں کا سرمایہ ڈوب چکا ہوتا ہے، بلکہ سوسائٹی اپنی شکل و صورت میں مکمل ہو کر بیچ بھی دی جاتی ہے۔ اس سارے عمل میں ایم ڈی اے کی خاموشی، اس کی شمولیت کا واضح ثبوت ہے۔
خبر کے مطابق ملتان کے گردونواح میں 196 سے زائد ایسی سوسائٹیاں موجود ہیں جن کا نہ کوئی منظور شدہ نقشہ ہے، نہ کوئی قانونی حیثیت۔ یہ تمام سوسائٹیاں عوام کے ساتھ سنگین دھوکہ دہی میں مصروف ہیں۔ ایم ڈی اے کے دفاتر ان تمام معاملات سے باخبر ہیں، مگر ان کی جانب سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ ’ٹاؤٹ کلچر‘ ہے جس کا مکمل نظام ایم ڈی اے کے افسران نے خود ترتیب دیا ہوا ہے۔ ہر افسر کے اپنے ’ٹاؤٹ‘ ہوتے ہیں، جو لوگوں سے براہ راست ڈیل کرتے ہیں، اور افسران ان کے ذریعے غیر قانونی کاموں میں ملوث ہوتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جب افسران کا تبادلہ ہوتا ہے، تو یہ ٹاؤٹ نئے افسر کے حوالے کر دیے جاتے ہیں، گویا کرپشن کا کاروبار ادارے کی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔
ایم ڈی اے کی ویب سائٹ پر اگرچہ متعدد کارروائیوں کی تفصیلات دی گئی ہیں، لیکن زمین پر عملی طور پر کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔ غیر قانونی کالونیوں کے خلاف ویب سائٹ پر رپورٹس تو ہیں، مگر ان میں سے بیشتر رپورٹس صرف دکھاوے کی کارروائیوں پر مبنی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں ایم ڈی اے نے ایک بھی پرائیویٹ اسکیم کو قانونی منظوری نہیں دی، جبکہ دوسری طرف غیر قانونی سوسائٹیاں دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو ادارہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر خاموش ہے – دونوں صورتوں میں یہ ایک مجرمانہ غفلت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک شہری اپنی زندگی بھر کی کمائی سے پلاٹ خریدتا ہے، تو اس کے ساتھ یہ دھوکہ کیوں کیا جاتا ہے؟ جب وہ ادارے کی ویب سائٹ، یا افسران سے رابطہ کرتا ہے تو اسے غلط معلومات کیوں دی جاتی ہیں؟ جب وہ پلاٹ خریدتا ہے تو اسے یقین کیوں دلایا جاتا ہے کہ یہ اسکیم جلد منظور ہو جائے گی؟ اور جب وہ گھر بناتا ہے تو چند سال بعد اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ تو غیر قانونی تعمیر ہے، اسے تو مسمار کیا جائے گا۔ ان تمام سوالات کا جواب دینے کے لیے حکومت، عدلیہ اور محکمہ اینٹی کرپشن کو مل کر ایک غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینا ہوگا، تاکہ ان لوگوں کو انصاف دلایا جا سکے جنہوں نے نہ صرف اپنا سرمایہ، بلکہ اپنے خواب بھی اس کرپٹ نظام کے حوالے کر دیے۔
ملتان جیسے شہر میں اگر لینڈ مافیا اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ وہ ایک باقاعدہ سرکاری ادارے کو یرغمال بنا لے، تو یہ صرف ایک شہر کا نہیں بلکہ پورے نظام کا بحران ہے۔ ایسے ادارے جو عوام کی فلاح کے لیے بنائے گئے تھے، اگر وہی کرپشن کے گڑھ بن جائیں، تو پھر ریاستی رٹ پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ یہ صرف ایک ادارے کی کرپشن کی کہانی نہیں، بلکہ ایک پورے سسٹم کی ناکامی کی تصویر ہے۔
یہ وقت ہے کہ حکومت پنجاب اس معاملے کو سنجیدگی سے لے۔ محض بیانات اور پریس کانفرنسز سے بات نہیں بنے گی۔ ان افسران کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا جنہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ ان سوسائٹیوں کے خلاف سخت ایکشن لینا ہوگا جو غیر قانونی طور پر قائم کی گئیں اور جنہوں نے عوام کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ ایم ڈی اے کے موجودہ اور سابقہ افسران کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے، اور ان کی تعیناتیوں میں اگر سیاسی یا مالی دباؤ پایا جائے تو اس کی بھی مکمل جانچ کی جائے۔
عوام اب مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔ میڈیا، وکلا، سول سوسائٹی اور باشعور شہریوں کو اس معاملے پر اجتماعی آواز بلند کرنی ہوگی۔ اگر آج بھی ہم نے آنکھیں بند رکھیں، تو آنے والے کل میں یہ لینڈ مافیا ہمارے شہروں کو نگل جائے گی، اور ادارے صرف تماشائی بنے رہیں گے۔ ایم ڈی اے جیسے ادارے جب تک خود کو عوام کے سامنے جواب دہ نہیں بنائیں گے، تب تک شہری ترقی کا خواب محض ایک سراب ہی رہے گا۔

رحیم یار خان کی تباہ حال صفائی مہم

رحیم یار خان شہر جو کبھی اپنی زرخیز زمینوں، مہمان نوازی اور تجارتی اہمیت کے لیے جانا جاتا تھا، آج بدانتظامی، بدبو اور بیماریوں کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ کوئی سیاسی بیان یا جذباتی الزام نہیں بلکہ بیورو رپورٹ کے مطابق زمینی حقائق کا تلخ آئینہ ہے۔ “ستھرا پنجاب” کے خواب میں ڈوبے ہوئے 7 ارب روپے کا منصوبہ جب عوامی اذیت اور سرکاری شرمندگی میں بدل جائے تو سوال صرف ٹھیکیدار کی نااہلی پر نہیں، پورے نظام پر اٹھتا ہے۔
پنجاب حکومت کے بلند بانگ دعوؤں اور وزیراعلیٰ مریم نواز کی ذاتی دلچسپی کے باوجود رحیم یار خان کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ چار سالہ صفائی منصوبے کی لاگت 7 ارب روپے مقرر کی گئی، جبکہ اضافی 10 ارب روپے تک کے منافع کی پیشگوئی کے ساتھ سینکڑوں ملازمین، بھاری مشینری اور متعدد ٹھیکیدار تعینات کیے گئے۔ لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ پورا شہر کوڑا کنڈی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ نہ گلیاں صاف، نہ سڑکیں قابل گزر، نہ سیوریج کا نظام فعال اور نہ ہی گٹر ڈھکن محفوظ۔
شہری علاقوں میں تعفن، مکھیوں اور مچھروں کی بہتات نے سانس لینا محال کر دیا ہے۔ گندے پانی کے جوہڑ، سیوریج کا اُبلتا پانی اور جگہ جگہ پھیلا کوڑا کرکٹ ایک ایسا منظر پیش کرتے ہیں جو شہری صحت پر کھلا حملہ ہے۔ اس ماحولیاتی بگاڑ نے ہیضہ، ڈائریا اور جلدی امراض جیسے خطرناک بیماریوں کو بڑھاوا دیا ہے، جس کی زد میں خاص طور پر بچے اور بزرگ آ رہے ہیں۔
اہم شاہراہیں جیسے کہ ریلوے روڈ، ایئرپورٹ روڈ، اندھے والا پل، علی تعمیر روڈ، مندر باری انسین اور کالج روڈ گندگی اور غلاظت کی تصویریں پیش کر رہی ہیں۔ شہر کی مختلف گلیوں میں گٹر کھلے پڑے ہیں، جن کے ڈھکن غائب ہیں۔ آئے روز ان میں گرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، لیکن بلدیاتی حکام خاموش ہیں۔ یہ خاموشی محض لاپروائی نہیں بلکہ ایک بے حس نظام کا ثبوت ہے۔
ستھرا پنجاب” ایک ایسا منصوبہ تھا جس کا مقصد پنجاب کے تمام شہروں کو صاف، شفاف اور بیماریوں سے پاک بنانا تھا۔ رحیم یار خان جیسے بڑے اور گنجان آباد شہر میں اس منصوبے کی ناکامی نہ صرف مقامی حکومت کی نااہلی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ بڑے دعوے کرنا آسان ہے، مگر ان پر عمل درآمد ایک مختلف حقیقت ہے۔ اگر کسی کوڑے دان سے شہر کا چہرہ صاف نہیں ہو سکتا تو اربوں روپے کی سرمایہ کاری محض خاک اُڑانے کے مترادف ہے۔
ٹھیکیداروں کو ٹھیکے دیتے وقت ان کی مقامی سوجھ بوجھ، کام کا سابقہ ریکارڈ اور تکنیکی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس، یہاں فیصلہ قابلیت پر نہیں بلکہ قربتوں اور سفارشات پر ہوا۔ بیورو رپورٹ کے مطابق ٹھیکیدار نہ صرف شہر کی گلیوں سے واقف نہیں بلکہ صفائی کے لیے مختص مشینری کا استعمال بھی واجبی حد تک ہو رہا ہے۔ یہ ٹھیکیدار ماضی میں بھی کئی بار ایسے منصوبوں میں ناقص کارکردگی دکھا چکے ہیں، پھر بھی انہیں دوبارہ چانس دینا شہریوں کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔
مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام کی شکایات کے باوجود نہ تو مقامی بلدیاتی افسران نے کوئی کارروائی کی، نہ ہی ضلعی انتظامیہ نے نوٹس لیا۔ اگر شہری آواز بلند کرتے ہیں تو ان پر احتجاج سے گریز کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ جب ایک شہری بیماری، گندگی اور انتظامی نااہلی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے حق مانگ رہا ہوتا ہے۔ اور اگر حکومت ایسے عوامی مطالبات کو سننے کے لیے تیار نہیں، تو پھر یہ جمہوری طرز حکمرانی کا کھلا مذاق ہے۔
حکومتِ پنجاب، بالخصوص وزیراعلیٰ مریم نواز، کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر رحیم یار خان کی صفائی صورتحال کا نوٹس لیں۔ ٹھیکیدار کے خلاف شفاف تحقیقات کر کے اس ناکامی کے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے۔ ستھرا پنجاب منصوبے کو صرف کاغذی رپورٹوں، فوٹو سیشنز اور سوشل میڈیا پر کامیاب دکھانا کافی نہیں۔ عوام کو سچائی نظر آنی چاہیے — صاف گلیاں، بہتا سیوریج، صاف ہوا، محفوظ سڑکیں، اور بیماریوں سے پاک ماحول۔
یہ اداریہ محض شکایت نہیں، بلکہ ایک شہری ذمہ داری ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ صفائی صرف فزیکل ایکٹ نہیں بلکہ صحت، وقار اور انسانی حقوق کا بنیادی جز ہے۔ جب صفائی کا نظام ناکام ہو جائے، تو حکومت کی کارکردگی، بلدیاتی اداروں کی افادیت اور عوامی نمائندوں کے وعدے سب زیر سوال آ جاتے ہیں۔
اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صرف احتجاجی بینر اور سڑکیں نہیں بھریں گی، بلکہ عوام کے دل بدگمانی، غصے اور بداعتمادی سے بھر جائیں گے۔ اور جب عوام حکومت پر سے اعتماد کھو دیں، تو کوئی منصوبہ، خواہ وہ ستھرا ہو یا سپر، کامیاب نہیں ہو سکتا۔

چینی کے بحران میں چینی نہیں، نظام پگھل رہا ہے

ملتان سے سامنے آنے والی حالیہ رپورٹ نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے چھپے معاشی اور اخلاقی زوال کی نئی پرتیں کھول دی ہیں۔ شوگر مافیا کا کردار، ایجنٹوں کی من مانی، اور حکومتی کمزوری—یہ سب عوامل مل کر ایک ایسے بحران کو جنم دے رہے ہیں جس کا بوجھ غریب عوام کو اپنے دسترخوان پر روزانہ اٹھانا پڑتا ہے۔
ذرائع کے مطابق چینی مہنگی ہونے کی اصل وجہ شوگر ملز کے “ڈیلیوری آرڈرز” پر کھیلا گیا سٹہ ہے۔ شوگر ڈیلرز نے فروری میں ہی ملز سے چینی خریدنے کے آرڈرز ایڈوانس میں حاصل کر لیے اور بعد میں ان آرڈرز کو کئی کئی ہاتھوں سے فروخت کیا۔ ہر ایجنٹ نے 2 سے 5 روپے فی کلو منافع کمایا، جبکہ قیمت کا بوجھ عام صارف پر آ پڑا۔ شوگر ملز مالکان نے دو نرخ مقرر کرنے کی تجویز دی—ایک گھریلو صارف کے لیے اور دوسرا کمرشل اداروں کے لیے۔ بظاہر یہ تقسیم عوام کے مفاد میں نظر آتی ہے، مگر درحقیقت اس میں چالاکی پوشیدہ ہے، کیونکہ ایسی تقسیم سے بھی مصنوعی قلت پیدا کر کے منڈی کو کنٹرول کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
حکومت نے کاغذی طور پر شوگر مافیا کے خلاف ایک کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ ایف آئی اے، ایف بی آر، اور انٹیلی جنس بیورو کی مشترکہ کارروائیوں سے وقتی طور پر قیمت میں کچھ کمی تو ضرور آئی، لیکن نہ تو کوئی بڑی گرفتاری عمل میں آئی، نہ ہی کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا جو مستقل ریلیف فراہم کر سکے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ کیا یہ کارروائیاں محض میڈیا کی حد تک محدود تھیں یا ان کا مقصد واقعی نظام کو درست کرنا تھا؟
چینی کی قیمت 159 روپے فی کلو تک جا پہنچی، حالانکہ گنے کی خریداری قیمت 350 سے 700 روپے فی من کے درمیان رہی۔ یہ تضاد بتاتا ہے کہ اصل منافع کسان یا حکومت نہیں، بلکہ ایجنٹ، ذخیرہ اندوز اور بااثر شوگر مافیا لے جا رہے ہیں۔ چینی کے ڈیلیوری آرڈرز پر سٹہ کھیلنا کسی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری جیسا عمل نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کی بنیادی ضرورت پر قمار بازی ہے، جو عام آدمی کے لیے زندگی مزید مشکل بناتی ہے۔
شوگر ملز کے مالکان کا اصرار ہے کہ گھریلو اور کمرشل نرخ الگ کیے جائیں، لیکن حکومتی مؤقف ہے کہ ایک ہی چیز کے دو نرخ مقرر نہیں کیے جا سکتے۔ یہ ایک اصولی مؤقف ہے جس پر قائم رہنا ضروری ہے، ورنہ منڈی میں افرا تفری مزید بڑھے گی اور مصنوعی قلت کا نیا باب کھلے گا۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں یہ معاملہ حل نہ ہو سکا، اور اگلا اجلاس عید کے فوراً بعد طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تک اجلاس ہوتے رہیں گے، تب تک عوام کیا کریں؟ وہ عید کی خوشیاں چینی کے بغیر منائیں یا سستی چینی کے انتظار میں وقت گزاریں؟
اصل مسئلہ قیمت نہیں، نیت کا ہے۔ جب تک حکومت، شوگر ملز، اور ڈیلرز کے درمیان ایک شفاف، منصفانہ اور مضبوط نظام نہیں بنایا جاتا، اس وقت تک چینی کا بحران یونہی لوٹ کر آتا رہے گا۔ صرف نرخ مقرر کرنا کافی نہیں، بلکہ اس پر عملدرآمد یقینی بنانا، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کڑی کارروائی، اور عوامی مفاد کو اولین ترجیح دینا از حد ضروری ہے۔
چینی کا مسئلہ محض رسد و طلب کا نہیں، یہ ایک گہرے معاشی اور اخلاقی بحران کی علامت ہے۔ اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو اگلی بار چینی نہیں، آٹا، چاول یا گھی نشانہ بنے گا—اور پھر بحران ہماری معیشت ہی نہیں، ہماری ریاست کی ساکھ کو بھی نگل جائے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں