ملتان (سٹاف رپورٹر) عام شہریوں، خانہ دار خواتین، حتیٰ کہ معصوم بچوں پر زندگی تنگ کرنے والی پنجاب پولیس کی اندھڑ گینگ کے ہاتھوں شرمناک پسپائی کے حوالے سے مزید انکشافات سامنے آئے ہیں اور مصدقہ ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مذکرات کے نتیجے میں جو نو افراد بازیاب کروائے گئے ہیں ان کی صلح کی شرائط میں یہ شرط بھی ڈاکوؤں کی پوری کی گئی ہے کہ پولیس کی طرف سے مبینہ طور پر انہیں دو پٹیاں گولیوں کی بھی دی گئی ہیں جو کہ چھ ہزار راؤنڈ بنتے ہیں کیونکہ تنویر انڈھڑ کی یہ اولین شرط تھی کہ انہوں نے ان بندوں کو اغوا کرتے وقت اور بعض اوقات میں پولیس کے ساتھ مڈ بھیڑ میں جو چھ ہزار راؤنڈ فائر کیے تھے وہ بھی انہیں واپس دیے جائیں اور انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق پولیس نے یہ شرط بھی قبول کرتے ہوئے انہیں یہ راؤنڈ بھی فراہم کر دیے ہیں جو کہ ایک مڈل مین اور ٹاؤٹ کے ذریعے فراہم کیے گئے یہ وہی ٹاؤٹ ہے جو 50 لاکھ تاوان کی رقم بھی اندھڑوں کے لئے لے کر گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ معاہدے کے مطابق پولیس تنویر اندھڑ کی 25 ایکڑ زمین اور گل لولائی کی 22 ایکڑ یعنی مجموعی طور پر جو 47 ایکڑ زمین سے پیچھے ہٹے گی تو سالہا سال سے اس غیر آباد ہو جانے والی زمین کو مقامی ایم پی اے ممتاز چانگ کے مزارعین کاشت کرکے اس کا منافع لولائی اور اندھڑوں کو دیں گے۔ اس تمام صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ماضی میں رحیم یار خان میں تعینات ایک ضلعی پولیس افیسر جنہوں نے مذاکرات کے بعد جانو اندھڑ کو اپنے علاقے میں واپس انے کی اجازت دی تھی، وہ جب مڈل مین کے ذریعے مذاکرات کے لیے گئے تھے تو پہلے تو انہیں بڑا پروٹوکول دیا گیا مگر بعد میں انہیں ایک مقام پر روک کر ان کی مکمل تلاشی لی گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ سی سی ڈی کے بہاولپور میں تعینات انسپیکٹر مسلم ضیا جن کی سگی خالہ تنویر اور منیر اندھڑ کی سوتیلی والدہ جبکہ ان کے بھائی جمیل اندھڑ کی سگی والدہ ہیں، کے قریبی رشتہ دار ان مذاکرات میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ رحیم یار خان میں تعینات موجودہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عرفان سموں نے درخواست کرکے حکومت پنجاب سے ایک بڑا ڈراون لیا جو راکٹ لانچر بھیلےجاسکتاتھا، تاکہ ڈاکوؤں کے ٹھکانوں پر حملے کیے جا سکیں اور ان کی منصوبہ بندی کے تحت رحیم یار خان پولیس سندھ کے علاقے سے کچے میں داخل ہوئی جہاں انہوں نے عمر شر نامی ایک ڈاکو کے ڈیرے پر تنویر اندھڑ اور اس کے سوتیلے بھائی جمیل اندھڑ پر راکٹ لانچروں سے حملہ کیا اور ٹارگٹ لے کر دو راکٹ لانچر ڈراون کے ذریعے پھینکے گئے مگر ناتجربہ کاری کی وجہ سے ایک بھی نشانے پر نہ لگا جس کی وجہ سے نہ تو کوئی ڈاکو زخمی ہوا اور نہ ہی کوئی موت کے گھاٹ اتر سکا۔ شر اور اندھڑ کئی دنوں تک اسے سندھ پولیس کی کاروائی سمجھتے رہے مگر بعد اذاں رحیم یار خان پولیس کے سربراہ نے جب یہ ذمہ داری قبول کر لی کہ انہوں نے ڈاکوؤں کی کمین گاہ پر ڈرون سے حملہ کروایا ہے تو معاملات خراب ہوتے چلے گئے اور جمیل اندھڑ جس نے اپنے سوتیلے بھائی تنویر اندھڑ سے قران پر حلف لیا تھا کہ وہ مزید کوئی کاروائی نہیں کرے گا، ڈرون کے ذریعے راکٹ لانچروں کے ناکام حملے کے بعد اس نے اس حلف کو توڑ دیا اور منصوبہ بندی کر کے گل حسن لولائی سمیت سی پیک پر موٹروے حملہ کرکے تین افراد کو زخمی اور 11 افراد کو اغوا کر لیا جن میں سے دو افراد سبزائی قبیلے کے تھے جو مذاکرات اور پولیس سے ہٹ کر ڈیل کے تحت چھڑوا لیے گئے جبکہ باقی نو مغویوں کو مبینہ طور پر 50 لاکھ تاوان، 6 ہزار راؤنڈ یعنی گولیاں، 47 ایکڑ زمین کی واپسی، عامر عباس نامی قیدی کی رہائی، جیل میں قید منیر اندھڑ کے خلاف مزید کوئی مقدمہ درج نہ کرنے یا کسی بھی قسم کی کاروائی نہ کرنے کی یقین دہانی۔ اندھڑ برادری کی زمین سے پولیس چیک پوسٹ کے خاتمے اور ان ڈاکوں کے پنجاب اور رحیم یار خان چھوڑ کر سندھ منتقل ہو جانے کی شرائط پر رہائی نصیب ہوئی۔








