
چانڈکا میں موجود جیئے سندھ سٹوڈنٹ فیڈریشن اور پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں اور غیر سندھی طلبہ جن میں پنجابی پٹھان کشمیری گلگتی اور سندھ کے مہاجر طلباء کی ایک سوچ تھی جی ایم سید کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں
روداد زندگی: تحریر ڈاکٹر ظفر چوہدری ہمارے ہاں عام طور پر پروفیشنل کالج کے کلاس فیلوز اور خاص کر ہاسٹل فیلوز کی دوستیاں زندگی بھر یاد رہتی ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی کی دوستی اور ڈسپلنسری فورسز میں بیج میٹ کا رشتہ زندگی بھر قائم اور یاد
روداد زندگی (ڈاکٹر ظفر چوہدری) میرا خیال تھا کہ میں روداد زندگی کو اپنے ذاتی واقعات اور حالات لکھنے تک محدود رکھوں جس میں اس وقت کے معاشرتی ، سیاسی اور ثقافتی اقدا ر کو بھی بیان کروں مگر کیا کروں کہ ’’ ہوتا ہے شب و
ٹک ٹاک ایڈمنسٹریشن پاکستان میں اداروں کے درمیان ٹکرائو او ر تنائو بہت بار دیکھنے کو ملا ہے لیکن حال ہی میں بہاول نگر میں ہونے والا اند وہناک سانحہ پہلی بار دیکھنے کو ملا ۔سانحہ بہاولنگر کو ہر شخص اور ہر مکتبہ فکر کے افراد
تحریر: میاں غفار (کارجہاں قسط نمبر 6) میں ایسے بہت سے سرکاری ملازمین کو جانتا ہوں جو اپنی شادی سے پہلے بہت ایماندار اور محدود ضروریات میں زندگی گزارتے تھے مگر شادی کے بعد بتدریج وہ کرپشن کی طرف مائل ہوتے گئے اور جوں جوں ریٹائرمنٹ
تحریر؛میاں غفار (کارجہاں) قسط نمبر 5 میں نے مذکورہ بیوہ کی بیٹی کا معاملہ بہاولپور میں اپنے محترم دوست اور سینئر صحافی نصیر چوہدری کے سپرد کیا اور پھر اس بیوہ کے خط کو اپنے لیٹر پیڈ پر چند سطریں لکھ کر جی ایچ کیو بھجوا
تحریر : میاں غفار (کارجہاں) قسط نمبر4 پچھلے کالم میں میں نے لکھا کہ اللہ پاک کے سبق دینے اور مدد کرنے کے اربوں طریقے ہیں۔ لاہور کے علاقے ساندہ کے ایک نوجوان کوجو کہ سرکاری ملازم تھا اور غالباً محکمہ ایکسائز کا ملازم تھا۔ اسے
تحریر: میاں غفار (کارجہاں) قسط نمبر3 سابقہ ضلع شیخوپورہ اور موجودہ ضلع ننکانہ میں جڑانوالہ روڈ پر ایک قصبہ منڈی فیض آباد ہے جس کا پرانا نام دھوکہ منڈی ہوا کرتا تھا۔ یہاں کے لوگ بہت پُرامن اور کاروباری ہیں اور تعلیم میں بھی کسی سے
کار جہاں (قسط اول):تحریر میاں غفار قسط اولاس دور کو گزرے سالہا سال بیت گئے جب عید الفطر ہمارے 80 فیصد پاکستانیوں کے لئے خوشیاں لاتی تھی۔ اب کوئی بے چارہ کسی ناکے سے خالی جیب گزرے تو رمضان کے آخری عشرے میں یہ عمل اس کے
کار جہاں (میاں غفار) ساتویں قسط این ایف سی یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر علی ملک کالرو سے میری کوئی ذاتی لڑائی نہیں مگر بعض لوگوں کا تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑتی اور ایسے لوگوں پر اعلیٰ ترین تعلیم سے زیادہ
(چھٹی قسط)کارجہاں۔ میاں غفار احمد۔ این ایف سی یونیورسٹی کے وی سی آفس میں دو گھنٹوں پر محیط انٹرویو کے دوران جب وائس چانسلر ڈاکٹر کالرو صاحب کا اردلی چائے اور کچھ بیکری کا سامان لے کر کمرے میں داخل ہوا تو ڈاکٹر اختر علی کالرو نے
تحریر: میاں غفار ( کارجہاں قسط نمبر 5 ) انہی دنوں بتدریج تعلیم نے کاروبار کی شکل اختیار کر لی۔ جب میں نے روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں ایجوکیشن رپورٹر کے طور پر کام شروع کیا تو مجھے تعلیمی بورڈوں کے قصے معلوم ہوئے۔ ملتان کا ایک طالب
تحریر : میاں غفار ، کار جہاں میں جس سکول میں پڑھتا تھا اس زمانے میں اس کی فیس بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اگر آج کے زمانے کو دیکھا جائے تو میں مفت ہی میں پڑھ رہا تھا میری پنجاب یونیورسٹی کی سالانہ فیس 1250
(قسط 3)میاں غفار ؛کار جہاں مجھے اپنے سکول کے زمانے کے پرنسپل جن کا نام مجھے یاد نہیں مگر میں انہیں کبھی بھی بھلا نہ پایا اور وہ میری یادوں میں زندہ ہیں ۔ میں کلاس روم کے باہر برآمدے سے گزر رہا تھا۔ مجھے روکا
(قسط 2 )کار جہاں میاں غفار ڈاکٹر رفیق احمد نے درجنوں صفحات پر مشتمل تقریباً دس سال پرانی فائل کا مطالعہ شروع کیا تو عقدہ کھلا کہ یونیورسٹی کا ایک ملازم فوت ہو گیا تھا تو پنجاب یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن کی طرف سے مرحوم کی
کار جہاں میاں غفار(قسط اول ) عزت کا معیار ہر کسی کے نزدیک الگ الگ ہی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اہل جنت کیلئے جنت اور دوزخ کا درمیانی علاقہ ہی دوزخ ہوتا ہے جبکہ اہل دوزخ کیلئے وہی جنت۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر
کار جہاں میاں غفار 20 روز گزر گئے ملتان کے محلہ جوگیاں والا میں سلنڈر پھٹنے سے سہری کے وقت منہدم ہونے والے گھروں کے ملبے تلے دب کر جن دو خاندانوں کے 9 افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں سے ایک کا تو پورا خاندان
روداد زندگیڈاکٹر ظفر چوہدری3قسط نمبر میں نے ابتدا میں سلیم صافی کے کالم سرمایہ کاری کیسے آئے گی؟ کا ذکر کیا تھا جس میں صافی صاحب نے بتایا تھا کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار متحدہ عرب امارات کا رخ کیوں کررہے ہیں کیونکہ وہاں پر
قسط نمبر 1 تقریباً دو ماہ سے بقول غالب’’ یہ طبیعت ادھر نہیں آتی‘‘والا معاملہ میرے ساتھ تھا۔ لکھنے کو دل نہیں چاہتا تھا کہ اپنی روداد کیا لکھوں جبکہ پھر بقول غالب’’ ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے‘‘9 مئی سے 9 مئی تک
ایران کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی حالیہ بلا اشتعال خلاف ورزی اور اس کے بعد پاکستانی حدود کے اندر حملے نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں دو معصوم بچوں کی المناک موت اور تین
روداد زندگی: تحریر ڈاکٹر ظفر چوہدری مجھے صوفی صاحب نے اپنے پاس بلا لیا اور بھی چند لوگ ہی مجلس میں موجود تھے۔ ظہر کا بھی وقت نہیں ہوا تھا۔ میں اپنا مدعا بیان کیا کہ اگر آپ گورنر پنجاب کو میری سفارش فرما دیں تو
تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری صوفی برکت علی مجھے اپنے گھر لے گئے جو کچی مٹی سے بنا ہوا تھا، گھر کے احاطہ میں پرانا بوہڑ کا درخت تھا۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ میں اسی جگہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں، درخت کے چاروں طرف چھوٹے
روزنامہ قوم۔ ملتان۔ سوموار 8 جنوری 2024 کالم بحوالہ ممتاز خان کھچی مرحوم کارِ جہاں۔ تحریر: میاں غفار زندگی میں ہزاروں لوگوں سے واسطہ رہا اور ہر روز ہی انسانی جبلت‘ نفسیات و رویوں کے حوالے سے نت نئے تجربات ہوتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ زندگی
(روداد زندگی)تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری میں جب سلار والا دارالاحسان پہنچا تو ظہر اور عصر کے درمیان وقت تھا۔ صوفی برکت علی صاحب اس وقت مسجد کے صحن میں تشریف فرما تھے۔ تقریباً دو یا اڑھائی سو کے قریب افراد بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی صوفی
کار جہاں ۔ میاں غفار آج 16 دسمبر ہے۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کا تکلیف دہ دن۔وہ بنگالی جنہیں ہم ان کی ٹکہ نامی کرنسی کا نام لے کر دو ٹکے کے لوگ کہتے تھے، وہ جنہیں ہم کالے بھدے اور کمتر سمجھتے تھے۔ وہ
کار جہاں‘ میاں غفار پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کی تمام باتیں درست ثابت ہونے کے باوجود میں نے انہیں اہمیت نہ دی اور اِن کے علم اور بصیرت کو ایک غیر معمولی کی ذہانت ہی گردانتا رہا اور اسی طرح کئی سال بیت گئے۔ اسلام
” کارجہاں۔ میاں غفار احمد (قسط اول) منفرد اسلوب اور پختہ رائے کے حامل کالم نگار جناب ہارون الرشید جنہیں مجھ سمیت سینکڑوں لکھنے والے استاد گرامی کا درجہ دیتے ہیں، آج سے 20 سال قبل روزنامہ خبریں کے لئے کالم لکھا کرتے تھے۔ میں ان
روداد زندگی ( ڈاکٹر ظفر چوہدری ) ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں جو زرعی اصلاحات ہوئی اس پر بھی بہت زیادہ منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا جبکہ ان زرعی اصلاحات کے مثبت پہلوئوں بارے بہت ہی کم لکھا گیا اور دانستہ طور پر نظر
تحریر:میاں غفار(کار جہاں) میرے علم میں نہیں مگر کوئی صاحب علم بتا رہے تھے کہ ٹریفک کے حوالے سے دو درجن کے قریب قوانین ہیں جن میں سے آخری آپشن ایف آئی آر ہے مگر اِسے پہلا آپشن بنا کر صوبے بھر میں نافذ کر دیا
تحریر : میاں غفار (کار جہاں ) ایک طرف پنجاب پولیس معصوم طلبہ کو موٹر سائیکل اور سکول بیگز سمیت پکڑے ہی جا رہی ہے اور دوسری طرف شہری پولیس یونیفارم میں ڈکیتی کرنے والے پولیس اہلکاروں کو رنگے ہاتھوں پکڑ رہے ہیں۔ ملتان کے تھانہ