
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کے حالیہ ریمارکس پر اختلاف کرنا آسان نہیں۔ انہوں نے کھلے الفاظ میں کہا کہ پاکستان میں رائج ہائبرڈ نظام — جس میں غیر منتخب قوتیں براہِ راست شہری معاملات میں مداخلت کرتی ہیں — دراصل آمریت کا
ہمارے سماج میں جب بھی کسی جامعہ میں جنسی ہراسانی، بلیک میلنگ یا اخلاقی جرائم کا انکشاف ہوتا ہے تو کچھ حلقے فوری طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ واقعات ’’معمول‘‘ ہیں، میڈیا انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، یا
حالیہ دنوں ایک تشویشناک خبر منظر عام پر آئی کہ پاکستان شدید ماحولیاتی بحران کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت کے نئے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنے کا عندیہ دیا اور کہا
چھ ستمبر کا دن ہر پاکستانی کے دل میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ دن نہ صرف وطنِ عزیز کے دفاع میں دی جانے والی عظیم قربانیوں کی یادگار ہے بلکہ یہ قومی یکجہتی، حب الوطنی اور خودداری کے اس جذبے کی تجدید کا موقع
پاکستان میں مون سون کا موسم ہر سال لاکھوں افراد کے لیے خوف اور تباہی کا پیغام لے کر آتا ہے، اور بدقسمتی سے 2025 کا سال بھی اس سے مختلف نہیں رہا۔ جنوبی پنجاب ایک بار پھر شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہے، اور اس
وہ جو بولتے تھے، اب چھپے بیٹھے ہیں۔ اور جو کبھی ان کے وعدوں کے گواہ تھے، وہ اب یا تو خاموش ہیں، یا خود اپنی زبان سے مکر چکے ہیں۔ افغانوں کی حالیہ بے دخلی، اور ان کے بعد جرمنی کا ردعمل — محض سفارتی
کوئٹہ میں حالیہ خودکش حملہ، جس میں درجنوں جانیں ضائع ہوئیں، محض ایک دہشت گردی کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی حقیقت کی نقاب کشائی تھی جسے ہم اکثر جان بوجھ کر نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس واقعے نے بلوچستان کے منظرنامے پر ایک
کسی معاہدے کی عمر اگر طے شدہ ہو، تو اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی اس کے خلاف شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں۔ پاکستان میں این ایف سی ایوارڈ کا معاملہ کچھ اسی طرح کا ہے۔ ہر پانچ سال بعد مرکز اور صوبے کسی نئی
پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر “نئے صوبوں” کی بحث زور و شور سے ہورہی ہے۔ اس بحث کا آغاز انہی حلقوں کی جانب سے کیا جارہا ہے جو پاکستان کی ریاست کی کثیر القومیتی شناخت کو ماننے سے انکاری رہے ہیں اور یہ
دنیا ایک بار پھر ایک نئے نظام کی جانب بڑھ رہی ہے—یا کم از کم یہی تاثر دیا جا رہا ہے۔ پرانے عالمی نظام کی بنیادیں، جو ایک صدی سے مغرب کے غلبے پر کھڑی تھیں، اب بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ مگر جب عمارت گرنے لگتی
محکمۂ موسمیات کی تازہ ترین ہائی الرٹ وارننگ نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ گلگت بلتستان میں گلیشیائی جھیلوں کے اچانک پھٹنے کے واقعات بڑے پیمانے پر تباہی لا سکتے ہیں۔ درجہ حرارت معمول سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے اور
وزیرِاعظم پاکستان جناب محمد شہباز شریف اور روسی وفاق کے صدر جناب ولادیمیر پوٹن کے درمیان حالیہ ملاقات نے پاکستان اور روس کے تعلقات کو ایک نئی توانائی دی ہے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے اس عزم کا
شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ دو روزہ اجلاس، جو چین کے شہر تیانجن میں اختتام پذیر ہوا، نے دنیا کو ایک ایسے کثیرالجہتی منظرنامے کی جھلک دکھائی ہے جس میں خودمختار ریاستیں برابری کی بنیاد پر اکٹھی ہو سکیں، اور اس یک رُخی مغربی و یورپی
پاکستان ایک بار پھر سیلاب کی شدید تباہ کاریوں سے گزر رہا ہے۔ محکمۂ موسمیات اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق رواں برس مون سون بارشوں کے نتیجے میں اب تک تقریباً 500 افراد جاں بحق، 9 لاکھ سے زائد لوگ متاثر، اور 80 ہزار کے
موجودہ برساتی سیلاب نے وسطی پنجاب کی وسیع و عریض زرعی زمینوں کو نگل لیا ہے۔ لاکھوں چھوٹے کسان اپنے کھیت، گھر اور مال مویشی چھوڑ کر بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے آ گئے ہیں۔ دریائے ستلج، راوی اور چناب کے کناروں پر بسنے والے
پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ نئی قائم ہونے والی پاکستان ورچوئل ایسیٹس ریگولیٹری اتھارٹی (PVARA) کے بورڈ میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی اور کرپٹو ٹریڈنگ کو جلد از جلد قانونی حیثیت دی جائے۔ اس کے برعکس اسٹیٹ
پاکستان کے لیے یہ لمحہ انتہائی تشویش ناک ہے کہ ٹانک اور شمالی وزیرستان میں دو مزید بچے پولیو وائرس کا شکار ہو کر زندگی بھر کے لیے مفلوج ہو گئے ہیں۔ اس برس اب تک کیسز کی تعداد 23 تک پہنچ گئی ہے، جن میں
پنجاب کے میدان آج کل ایک بار پھر تباہ کن سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ ستلج، راوی اور چناب کی گزرگاہوں پر پانی بپھرتا ہوا اپنے راستے بناتا جا رہا ہے۔ یہ کوئی نیا المیہ نہیں؛ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر برس برسات
وہ لوگ جو اینٹیں پکاتے ہیں، ان کے خواب راکھ ہو چکے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سے جو اینٹیں نکلتی ہیں، وہ محلات تعمیر کرتی ہیں، سڑکیں بناتی ہیں، اور شہروں کو آسمان سے باتیں کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ مگر انہی ہاتھوں کی اپنی زندگی،
وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے پاکستان کی نئی نیو انرجی وہیکل (NEV) پالیسی 2025-30 کا “رسمی” آغاز—جو درحقیقت پہلے ہی 19 جون کو ایک حکومتی اعلامیے کے ذریعے سرکاری” طور پر متعارف کرائی جا چکی تھی—ملک کے پالیسی کلچر کا ایک مانوس منظر پیش کرتا
پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کا حالیہ شکوہ کہ ہم نے ماضی کی ماحولیاتی آفات سے کچھ نہیں سیکھا، صرف ایک جذباتی اظہار نہیں بلکہ ایک قومی بحران کا کھلا اعتراف ہے۔ یہ شکوہ اس وقت سامنے آیا ہے جب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان
گزشتہ ہفتے انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس -آئی آئی ایف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک تلخ مگر سچ پر مبنی آئینہ دکھایا ہے۔آئی ائی ایف، جو دنیا کے 60 سے زائد ممالک کی 400 سے زائد مالیاتی اداروں
پاکستان تحریکِ انصاف (PTI) اس وقت ایک ایسی صورتِ حال سے گزر رہی ہے جو نہ صرف اس کی تنظیمی ساخت پر سوالیہ نشان ہے بلکہ قیادت کے فیصلوں اور جماعتی اتحاد کے درمیان خلیج کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔ “استعفیٰ دیں یا نہ
برصغیر پاک و ہند اس وقت ایک سنگین قدرتی آفت کی لپیٹ میں ہے، جہاں یکے بعد دیگرے آنے والی موسلا دھار بارشوں نے تمام بڑے دریاؤں کو خطرناک حد تک لبریز کر دیا ہے۔ دریائے چناب، راوی، ستلج اور جہلم سمیت ہر دریا اب قہر
پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات، جو عشروں تک سرد مہری اور بداعتمادی کا شکار رہے، اب رفتہ رفتہ بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ 1971ء کے تلخ واقعات، جن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر ایک نئی ریاست بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے
پاکستان کے حالات بظاہر کچھ سنبھلے ہوئے لگتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں، ہندوستان کے ساتھ ایک کشیدگی کے موقع پر، پاکستان نے جس طرح مؤثر انداز میں اپنا دفاع کیا، وہ قابلِ تعریف ہے۔ قوم میں ایک نئی خوداعتمادی اور فخر نے جنم لیا ہے۔
پاکستان میں سیاسی معاملات جس انداز سے ریاستی طاقت کے استعمال سے وابستہ ہو چکے ہیں، وہ جمہوری اقدار، بنیادی حقوق اور قانون کی بالادستی پر ایک سنگین سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے دو بھانجوں کی حالیہ گرفتاری ان واقعات کی
کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد شفافیت، جوابدہی اور مالی دیانت داری پر استوار ہوتی ہے۔ ترقی پذیر جمہوریتوں میں، جہاں ریاستی ادارے ابھی مکمل استحکام کی طرف گامزن ہوتے ہیں اور حکومتی نظام میں بدعنوانی کے سائے لمبے ہوتے ہیں، وہاں عوامی نمائندوں اور سرکاری
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کی تاریخ ایک پیچیدہ اور جذباتی پس منظر رکھتی ہے۔ 1971 کے سانحے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر اگرچہ تعلقات قائم رہے، لیکن ایک طویل عرصے تک ان میں وہ گرمجوشی اور اعتماد پیدا نہ
پاکستان اور چین کے مابین تعلقات ایک نئی جہت اختیار کر چکے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ای کا حالیہ دورۂ اسلام آباد نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ دوستی کا عملی اظہار تھا بلکہ اس نے مستقبل میں تعلقات کو مزید وسعت دینے کے