حالیہ دنوں میں ایک حیران کن پیش رفت سامنے آئی ہے جہاں امریکی حکومت نے بٹ کوائن کے لیے ایک اسٹریٹجک ریزرو بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے نے عالمی مالیاتی اور کرپٹو کرنسی کی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے، کیونکہ چند سال پہلے تک امریکی پالیسی ساز کرپٹو کرنسی کے سخت ناقد تھے۔ اب اچانک حکومت کا رویہ بدلنا اور اسے قومی اثاثے کے طور پر محفوظ کرنے کی حکمت عملی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ اس نئے فیصلے کے مطابق، حکومت ان تمام کرپٹو کرنسی اثاثوں کو اپنے ریزرو میں شامل کرے گی جو کسی بھی قانونی کارروائی کے نتیجے میں ضبط کیے گئے ہوں گے۔ حکومتی نمائندوں کے مطابق، یہ ذخیرہ فروخت نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے امریکی معیشت کے استحکام کے لیے محفوظ رکھا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق، اگر یہ اقدام کامیاب رہا تو امریکہ کرپٹو کرنسی کا ایک نیا مرکز بن سکتا ہے، جس سے نہ صرف امریکی معیشت کو فائدہ ہوگا بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی یہ ایک مثال بن جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چند سال پہلے تک امریکی پالیسی ساز کرپٹو کرنسی کو غیر مستحکم اور مشکوک تصور کرتے تھے۔ تاہم، اب یہ نظریہ تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے، اور امریکی صدر کے حالیہ بیانات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ وہ امریکہ کو “دنیا کا کرپٹو کیپیٹل” بنانا چاہتے ہیں۔
حکومت نے ایک نئی ڈیجیٹل اثاثہ پالیسی بھی متعارف کرائی ہے جس کے تحت دیگر کرپٹو کرنسیز جیسے ایتھیریم، ایکس آر پی، سولانا اور کارڈانو کو بھی ریزرو میں شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ یہ اعلان سامنے آتے ہی کرپٹو مارکیٹ میں بڑی تبدیلی دیکھی گئی اور ان کرنسیز کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ تاہم، جیسے ہی حکومت نے یہ وضاحت کی کہ وہ اس ذخیرے کے لیے مارکیٹ سے بٹ کوائن یا کوئی اور کرپٹو خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتی، بٹ کوائن کی قیمت میں پانچ فیصد تک کمی واقع ہوگئی۔
یہ معاملہ اب بھی بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ کیا یہ منصوبہ امریکی معیشت کے لیے واقعی فائدہ مند ثابت ہوگا؟ کیا یہ اقدام کرپٹو کرنسی کی عالمی سطح پر قانونی حیثیت کو مزید مستحکم کرے گا؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا دیگر ممالک بھی اس ماڈل کو اپنانے پر غور کریں گے؟ ان تمام سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ واضح ہوں گے، لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ فیصلہ دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کے مستقبل پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔
