ملتان (سٹاف رپورٹر) کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد ایک بڑے انتظامی اور قانونی بحران کی زد میں آ گئی ہے۔ سینیٹ کے حالیہ خصوصی اجلاس میں ایسے فیصلےکئے گئے جنہیں نہ صرف خلافِ ضابطہ بلکہ میرٹ اور قانون سے انحراف قرار دیا جا رہا ہے۔ جنرل سیکرٹری اسوا کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کی جانب سے صدر پاکستان کو لکھے گئے خط میں سینیٹ کے حوالے سے شکایات کی گئیں کہ 20 اگست 2025 کو ہونے والے اجلاس میں ریکٹر کی تعیناتی بنیادی ایجنڈا تھی، تاہم سرچ کمیٹی نے کوئی پینل تجویز ہی نہیں کیا تھا۔ کمیٹی کے اراکین پہلے ہی تحریری طور پر رجسٹرار اور صدرِ پاکستان کو آگاہ کر چکے تھے کہ وہ اپنی سابقہ سفارشات واپس لے چکے ہیں۔ اس کے باوجود سینیٹ نے یکطرفہ طور پر تین افراد کو ریکٹر کے لیے منتخب کر کے سرچ کمیٹی کو مکمل نظر انداز کر دیا ۔ذرائع کے مطابق سرچ کمیٹی کی واضح ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر سینیٹ نے اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کیے۔ یہ اقدام COMSATS ایکٹ 2018 اور اسٹیچیوٹس 2019 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مزید برآںپروفیسر ڈاکٹر شاہد خٹک کو، جو اگلے پینل میں شامل تھے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کا کیس زیر سماعت ہے، دانستہ طور پر باہر کر دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدام عدالتی احکامات کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ تحقیقاتی خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران غیر قانونی طور پر متعدد اضافی ایجنڈا آئٹمز شامل کیے گئے، جن میں چند منتخب اساتذہ کو ترقی دینے کے لیے ہنگامی سلیکشن بورڈ بلانا، جبکہ نان فیکلٹی سلیکشن بورڈ کئی سالوں سے زیر التوا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے ڈینز کی تعیناتی جو سالہا سال غیر حاضری پر تھے ۔ اور سرچ کمیٹی اور سینیٹ سب کمیٹی کی غیر قانونی تشکیل نو، تاکہ مخصوص افراد کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ جس سے رجسٹرار اور ریکٹر پر متعدد سوالات کھڑے ہو گئے۔ خط میں براہِ راست رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر شمس القمر پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ انہوں نے بطور سیکرٹری سینیٹ جان بوجھ کر قواعد کو نظر انداز کیا۔عارضی ریکٹر پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے بطور صدرِ اجلاس غیر قانونی اضافی ایجنڈا آئٹمز کو منظور کرایا چنانچہ صدر پاکستان سے درخواست کی گئی کہ ریکٹر کی تعیناتی اور اجلاس میں کیے گئے تمام فیصلے فوری طور پر کالعدم قرار دیے جائیںاور اجلاس دوبارہ طلب کر کے کارروائی مکمل طور پر قواعد کے مطابق کی جائے۔رجسٹرار کے خلاف باضابطہ انکوائری کی جائے تاکہ آئندہ ایسی بے ضابطگیوں کا راستہ روکا جا سکے۔ خط میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ CUI کے اساتذہ اور اسٹاف کسی غیر قانونی اقدام کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرٹ، شفافیت اور قانون کی بالادستی ہی یونیورسٹی کی بقا کی ضمانت ہے۔ یہ معاملہ اب صدرِ پاکستان اور اعلیٰ حکام کے نوٹس میں ہے۔ اگر کارروائی نہ ہوئی تو یہ بحران نہ صرف COMSATS بلکہ پورے اعلیٰ تعلیمی شعبے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
کامسیٹس میں ریکٹرکی تعیناتی نہ ہونےسے اہم معاملات شدید تعطل کا شکار
ملتان (سٹاف رپورٹر) کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں سرچ کمیٹی کی جانب سے ریکٹر کے اُمیدواروں کے انٹرویو کے بعد چانسلر کو 3 ناموں کا پینل بھیجے جانے کے باوجود مستقل ریکٹر کی تعیناتی عمل میں نہ آ سکی جس سے یونیورسٹی اور اس کے 7 کیمپسز میں تعیناتیوں و پروموشنز کے تمام تر کیسز، ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس، متعدد ملازمین کی پے سکیل کی درستگی، گریڈز کی درستگی وغیرہ تعطل کا شکار ہو چکے ہیں اور 2 سال سے زائد عرصے سے مستقل ریکٹر نہ ہونے کی وجہ سے معاملات شدید ترین تعطل کا شکار ہیں۔ کیونکہ ایوان صدر اور وفاقی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے عارضی ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ساجد قمر کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ وہ صرف روزانہ کے معاملات تک محدود رہیں۔ اس کے باوجود غیر قانونی سلیکشن بورڈ کروانے کے بعد وفاقی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے ان تمام تعیناتیوں کو ختم کردیا گیا تھا اور کہا گیا کہ تمام تر تعیناتیاں ریگولر ریکٹر کے آنے کے بعد کی جائیں گی۔ یاد رہے کہ سرچ کمیٹی میں ریگولر ریکٹر کے لیے بھیجے جانے پینل میں پروفیسر ڈاکٹر راحیل قمر، ڈاکٹر طفیل اور ڈاکٹر جمیل کے نام بھیجے گئے تھے جس میں ڈاکٹر راحیل قمر ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔








