ملتان (سٹاف رپورٹر) خواتین یونیورسٹی ملتان کی پرو وائس چانسلر و عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے جعلی تجربے کے سرٹیفکیٹ اور خواتین یونیورسٹی ملتان میں ملازمت جوائن کرنے کے بعد دھوکہ دہی سے اپنی میٹرک کی سند حاصل کرنے کے 32 سال بعد اسی سند جس میں ان کے میٹرک میں سیکنڈ ڈویژن کے ساتھ 850 میں سے 498 نمبر تھے پر تاریخ پیدائش میں تبدیلی کر کے اپنی پیدائش ہی 4 سال لیٹ لکھوا کر اپنی سروس میں اضافی کرنے کے بعد سلیکشن بورڈ اور سینڈیکیٹ کے فیصلے، کہ جن میں واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ پرائیویٹ کالج کی تدریس کا تجربہ کسی طور بھی شمار نہیں کیا جائے گا، کے باوجود جعلی تجربے کے سرٹیفیکیٹ میں دھوکے سے درج 17 سالہ تجربے کو شمار کروا کر خود کو پروفیسر اور بعد ازاں پرو وائس چانسلر بنوا لیا اور پھر 2 سال سے عارضی وائس چانسلر کے عہدے پر تعینات رہتے ہوئے خواتین یونیورسٹی ملتان کے انتظامی معاملات میں مبینہ طور پر بیش بہا جعل سازی کا ارتکاب کیا۔ روزنامہ قوم کو موصول ہونے والے مصدقہ ڈاکومنٹس کے مطابق خواتین یونیورسٹی ملتان کے سلیکشن بورڈ کا اجلاس 18 اکتوبر 2021 کو خواتین یونیورسٹی ملتان کی سابق وائس چانسلر کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں شامل 3 وائس چانسلرز میں پروفیسر ڈاکٹر عُظمی قریشی، سابق وائس چانسلر، خواتین یونیورسٹی ملتان، پروفیسر ڈاکٹر محمد علی شاہ، سابق وائس چانسلر، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ امین قادر، سابق وائس چانسلر، فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی جبکہ سیکرٹری کے فرائض اس وقت کی رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر قمر رباب نے سر انجام دیے تھے کے ایجنڈا نمبر 3 کے آئٹم نمبر 3 میں واضح طور پر یہ لکھا گیا تھا کہ پرائیویٹ کالج کا تجربہ کسی صورت بھی شمار نہیں کیا جائے گا مگر عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کا پروفیسر کی تعیناتی کے وقت پوسٹ پی ایچ ڈی تجربہ 5 سال 3 ماہ کا تھا جبکہ ٹوٹل خواتین یونیورسٹی ملتان کا تجربہ 6 سال تھا۔ میمونہ پوسٹ گریجویٹ کالج کے تجربے کا سرٹیفیکیٹ 17 سال ظاہر کیا گیا مگر بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں میمونہ کالج کے الحاق کے ڈاکومنٹس کے مطابق بھی ان کا تجربہ 6 سال کا بنتا تھا جسے 1 لگا کر 16 کر دیا گیا اگر یہ 6 سالہ پرائیویٹ کالج کا غیر قانونی تجربہ شمار بھی کر لیا جائے تو 12 سال بنتا ہے جو کہ ٹوٹل 15 سالہ تجربے سے 3 سال کم ہے مگر خواتین یونیورسٹی ملتان کے اپنے قوانین کے مطابق بھی پرائیویٹ کالج کا تجربہ کسی طور شمار نہیں کیا جا سکتا مگر بعد ازاں کاغذات اور یونیورسٹی ریکارڈ میں ہیرا پھیری کر کے کم تجربے کو دھوکہ دہی سے بڑھا کر اور پرائیویٹ کالج کا تجربہ بھی شامل کروانے کے بعد عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے پہلے خود کو غیر قانونی طور پر پروفیسر بنوایا ۔ بعد ازاں اسی دھوکہ دہی کی بنیاد پر خود کو پرو وائس چانسلر بنوا کر عارضی وائس چانسلر کے عہدے پر غیر قانونی طور پر براجمان ہو گئیں۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب غلام فرید کی ہدایات پر سیکشن آفیسر شفاقت علی کا غیر قانونی عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی اپنی ہی گروپ کی تعینات کردہ قائم مقام رجسٹرار کو لیٹر لکھ کر رپورٹ مانگنا از خود ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے ارباب اختیار کی مبینہ پشت پناہی کے ضمرے میں آتا ہے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری تعلیمی شعبے میں اہم ترین عہدوں پر جعل سازی کا ارتکاب کر کے عارضی وائس چانسلر کا براجمان رہنا کیا ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے نظم و ضبط پر ایک سوالیہ نشان نہیں؟








