ملتان (سٹاف رپورٹر) خواتین یونیورسٹی ملتان کی 3 تاریخ پیدائش 1964,1966, 1968 رکھنے والی و جعلی تجربے کے سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر پروفیسر بن کر پرو وائس چانسلر بننے والی عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے خلاف ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب حرکت میں آ گیا۔ اور 26 ستمبر کو غیر قانونی، جعلی اور غیر اخلاقی پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے جعلی تجربے کی خبر لگنے کے بعد 26 ستمبر کو ہی ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی جانب سے جعلی تجربے کی حامل غیر قانونی پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی تعینات کردہ ایکٹنگ رجسٹرار سے ہی جواب طلب کرنے کے بعد ایکٹنگ رجسٹرار سے ہی غیر قانونی پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے ایجوکیشنل ڈاکومنٹس اور پرسنل فائل کے اہم ڈاکومنٹس طلب کر لیے ہیں۔ یاد رہے کہ تمام تر ڈاکومنٹس بشمول ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی میٹرک کی سند کے مطابق 1964, 1966, 1968 کے تمام ثبوت، ویمن یونیورسٹی ملتان جوائن کرنے کے بعد دھوکہ دہی سے تاریخ پیدائش تبدیل کروا کر درج کروانے کے ڈاکومنٹس، جعلی تجربے کا سرٹیفیکیٹ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے آفیشل الحاق شدہ کالجز میں میمونہ پوسٹ گریجویٹ کالج کی 1998 سے 2014 تک کی فیکلٹی لسٹ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا لیٹر جس میں واضح طور پر درج ہے کہ کالج کی جانب سے کلثوم سعید کا نام پہلے بار 2007 میں بھیجا گیا جو کہ کالج کی فیکلٹی لسٹ سے بھی صاف واضح ہے، پری سلیکشن بورڈ میٹنگ کے منٹس جس میں واضح طور پر درج ہے کہ پرائیویٹ کالج کا تجربہ شمار نہیں کیا جائے گا، سکروٹنی کمیٹی کے منٹس جس میں واضح طور پر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کو پروفیسر شپ کے لیے نا اہل قرار دیا گیا، یہ سب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے سیکرٹری ، ایڈیشنل سیکرٹری زاہدہ اظہر ، ڈپٹی سیکرٹری ڈاکٹر صائمہ انور دھمیال کو بھیج دیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے ذرائع کے مطابق 26 ستمبر کو جعلی تجربے کے سرٹیفیکیٹ کی خبر شائع ہونے کے بعد اسی دن 26 ستمبر کو ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں عارضی وائس چانسلر و غیر قانونی پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی ہدایات کے عین مطابق ایکٹنگ رجسٹرار کی جانب سے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو دھوکہ دیتے ہوئے جمع کروائے گئے جواب میں لکھا گیا کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ کا تجربے کا سرٹیفیکیٹ کالج سے تصدیق کروایا گیا تھا اور کالج نے اس تجربے کے سرٹیفیکیٹ کو مکمل طور پر تصدیق کیا جبکہ حقیقتاً جو تجربے کا سرٹیفیکیٹ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو ہی بھیجا گیا وہ کالج سے تصدیق نہیں کروایا گیا بلکہ اس کو ویمن یونیورسٹی ملتان کی ایک لیکچرار اور ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر سے تصدیق کروایا گیا ہے۔ یہ تمام دھوکہ دہی اور جھوٹ پر مبنی جواب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے ساتھ ہی ایک کھلم کھلا اور گھناؤنا مذاق ہے۔ عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کا ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ سب سے بڑا کھلم کھلا اور گھناؤنا مذاق یہ سامنے آیا ہے کہ ڈائیریکٹر کالجز کی جانب سے میمونہ کالج کو پہلی بار 1998 میں اجازت نامہ جاری کیا گیا تھا جبکہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے 1997 سے 2013 تک کا تجربے کا سرٹیفیکیٹ بنوا لیا۔ جبکہ 1998 میں کالج میں اسلامیات میں کوئی ڈگری شروع ہی نہ کی گئی تھی اور ڈاکٹر کلثوم پراچہ کی جانب سے دیے گئے موقف کے مطابق وہ دوسرے ڈیپارٹمنٹس میں اسلامیات کا مضمون پڑھاتی رہی ہیں۔ اس بارے میں موقف کے لیے جب عارضی و غیر قانونی پرو وائس چانسلر و غیر قانونی پروفیسر ڈاکٹر کلثوم پراچہ سے موقف کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔








