بہاولپور (افتخار عارف سے) نواب آف بہاولپور کی چولستان میں شاہی مزارع سکیم کو چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے عملہ پٹواری، تحصیلدار اور گرداورں نے کرپشن کی نذر کرتے ہوئے روزی روٹی کا ذریعہ بنا لیا۔ عملے کی معاونت اور پشت پناہی سی ڈی اے کی لیگل برانچ بھی کرتی ہے جو محکمہ اور حکومت کے مفاد کے تحفظ کےبجائے غیر قانونی قابضین کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔سندھ ،بلوچستان سمیت ڈیرہ غازی خان کے بااثر افراد جو کہ چولستان کے رہائشی بھی نہیں ہیں، نے لاکھوں ایکڑ زمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے ان میں بزدار گروپ، لال شاہ گروپ و دیگر گروپوں نے جدید اسلحے سے لیس اشتہاریوں کے ساتھ زور بازو قبضہ کرکے سولر پلیٹس کے ذریعے ٹربائنیں لگا کر بڑے پیمانے پر رقبے کاشت کر رکھے ہیں جن کی مکمل پشت پناہی سی ڈی اے کی لیگل برانچ بھاری رشوت کے عوض کر رہی ہے۔ اسی سہولت کاری کی وجہ سے ناجائز قابضین ایک حکم امتناعی سول کورٹ سے حاصل کرکے رقبہ سرکار عرصہ دراز سے کاشت کر رہے ہیں جن میں اکثر پٹواری حضرات خسرہ گرداوری میں انٹری کر دیتے ہیں یا بھاری رشوت کی وجہ سے ایک مربع کاشت کو چار پانچ ایکڑ ظاہر کرکے رپورٹ کر دی جاتی ہے ۔دیگر رقبہ سرکار چولستان کو بے دخل کرتے وقت نمبردار کی بجائے کسی بھی مقامی فرد جو محکمہ کا اپنا آدمی ہی ہے یا سیاسی سرپرستی کا حامل ہوتا ہے کے سپرد کر دیا جاتا ہے بعد ازاں فصل کاشت و برداشت کو منہا کرکے چند روپے سرکار کے کھاتے میں جمع کروائے جاتے ہیں باقی رقم سپردار عملہ فیلڈ خود ہضم کر لیتے ہیں اور افسران کو سب اچھا کی رپورٹ دے دیتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق صادق آباد سے لیکر منڈی صادق گنج تک پورے چولستان کی اتنی وسیع بیٹ میں صرف دو سی او، ایک تحصیلدار اور 2/3 نائب تحصیلدار تعینات ہیں۔ کمی نفری کی وجہ سے حلقہ پٹواری اپنے حلقوں کا خود ہی مالک ہے اور محض چند چکوک کو کمپیوٹرائز کر دیا گیا ہے اور کثیر تعداد میں چکوک کمپیوٹرائزڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہے کہ کرپشن کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔ بعد ازاں بے دخلی کرتے وقت پولیس فورس سے مدد طلب کی جاتی ہے جو کہ کم نفری کی وجہ سے بروقت میسر نہیں ہوتی جس سے ناجائز قابضین مالی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بے دخلی کرنے سے قبل ہی متعلقہ پٹواری انہیں ہوشیار کر دیتا ہے کہ جلدی سے عدالت سے سٹے لے آئیں جس کی وجہ سے محکمہ سی ڈی اے بدنظمی اور بدحالی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ایم ڈی چولستان کی بھی سیاسی تعیناتی ہوتی ہے جس وجہ سے کئی سیاستدان ان شاہی مزارع سکیم کی پرچیوں کو اپنے فرنٹ مینوں کو استعمال کر کے چولستان کے لاکھوں ایکڑ رقبے پر قابضین ہیں جن کی سہولت کاری نامی گرامی پٹواری کر رہے ہیں یہ پٹواری بھی سیاسی طور پر عرصہ دار سے ایک ہی سیٹوں پر تعینات ہیں۔ یاد رہے کہ شاہی مزارہ سکیم کا کیس ممبر بورڈ اف ریونیو کے پاس زیر سماعت ہیں اس کے باوجود چولستان میں چند مقامی اور دیگر شہروں کے چٹی دلال جن میں محمد عمران، محمد سعید، ملک انور، ملک انوار اور دیگر کئی افراد شامل ہیں جو کہ اپنے اپ کو چولستان کے افسران کا قریبی عزیز یا دوست ظاہر کر کے چولستانیوں اور غیر چولستانیوں سے عرصہ دراز سے افسران کے نام پر اب تک کروڑوں روپے لوٹ چکے ہیں جن کے خلاف اینٹی کرپشن سمیت دیگر فورموں پر متعدد درخواستیں زیر سماعت ہیں اور ان درخواستوں کی پیروی بھی سی ڈی اے کے افسران اور پٹواری کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور ڈی جی اینٹی کرپشن ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم( جے آئی ٹی) بنائیں اور ناجائز قابضین اور ان کے تحفظ کرنے والی پٹواریوں اور گرداروں کے خلاف کاروائی عمل میں لائیں اور تحقیقات کی جائیں کے کس پٹواری نے اپنے دور تعیناتی کے دوران کس کس جگہ کتنے کتنے رقبوں پر ناجائز قبضے کروائے ہیں۔
