ملتان (وقائع نگار)پاکستان کی معاشی شریانوں پر سمگلنگ کا بحران مزید گہرا ہو گیا ہے جہاں پنجاب کے چار اہم ایئرپورٹس – لاہور، ملتان، فیصل آباد اور سیالکوٹ – کو مبینہ طور پر سمگلروں کے سہولت کاروں کو ‘ٹھیکے پر سونپ دیا گیا ہے۔ حساس اداروں کی رپورٹس کے باوجود کسٹمز حکام کی خاموشی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے روزانہ 30 سے زائد انٹرنیشنل فلائٹس کے ذریعے 50 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا سمگل شدہ سامان ملک بھر میں تقسیم ہو رہا ہے۔ یہ انکشاف ایک اندرونی دستاویز اور ذرائعِ کی بنیاد پر سامنے آیا ہے جو قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق ان ایئرپورٹس پر یورپ، قطر، دبئی اور مسقط سے آنے والی فلائٹس میں موبائل فونز، جنسی ادویات، سونا، ہیرے درجہ وار واچز اور کپڑے سمیت ممنوع اشیا کی سمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک اہم حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ “یہ کوئی چھوٹا نہیں بلکہ منظم نیٹ ورک ہے جو کسٹمز کے اندرونی افسران کی ملی بھگت پر چل رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں مسافروں کے سامان کی ‘چھان بین صرف رسمی ہے اور اصل سمگل شدہ مال کسٹمز کلیئرنس کے بغیر باہر نکل جاتا ہے۔”گزشتہ ماہ حساس اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں کسٹمز کے کلکٹر طاہر حبیب اور ایڈیشنل کلکٹر حنا گل کا تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ ان کی جگہ صائمہ ایاز رانا کو کلکٹر ایئرپورٹ تعینات کیا گیا جنہوں نے اپنی ذمہ داری سنبھالتے ہی ان ایئرپورٹس پر چھاپے مارنا شروع کر دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سمگلنگ کی شرح میں نمایاں کمی آ گئی تھی اور کئی بڑے نیٹ ورکس کو توڑا گیا۔ تاہم، یہ کامیابی زیادہ دیر نہ چلی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے ایک سابق وزیر کی سفارش پر اب یہ چاروں ایئرپورٹس ڈپٹی کلکٹر احمد ظہیر اور سپرنٹنڈنٹ بابر رحمان کو ‘ٹھیکے پر دے دیے گئے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ بابر رحمان کے خلاف ایک سال قبل حساس اداروں کی رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں انہیں سمگلروں کا سہولت کار قرار دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر انہیں پہلے ملتان اور پھر لاہور ایئرپورٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن دو روز قبل انہیں دوبارہ لاہور ایئرپورٹ پر تعینات کر دیا گیا۔ تعیناتی کے فوراً بعد بابر رحمان نے مبینہ طور پر اپنے ماتحتوں کے ذریعے سمگلنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔ ذرائع کے مطابق، ملتان میں سپرنٹنڈنٹ مرزا اقبال اور انسپکٹر ارسلان میرانی، سیالکوٹ میں سپرنٹنڈنٹ شاہد، اور فیصل آباد میں عبداللہ جیسے افسران کو استعمال کرتے ہوئے سمگلروں کو سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ پنجاب کے ایئرپورٹس پر سمگلنگ کا یہ نیا باب سیاسی سفارشات کی وجہ سے جاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سمگلنگ سے نہ صرف ٹیکس ریونیو کا اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی براہ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں، خاص طور پر موبائل فونز اور سونے جیسی اشیا کی درآمدات پر جو قومی خزانے کی اہم ذریعہ ہیں۔لاہور ایئرپورٹ پر حالیہ مہینوں میں موبائل فونز سمیت مختلف اشیا کی سمگلنگ کی روک تھام کی گئی تھی مارچ 2025 میں 14.5 ملین روپے مالیت کے موبائل فونز کی ضبطی اور ستمبر میں چاندی کی سمگلنگ کو ناکام بنایا گیا تھا لیکن ان واقعات کے باوجود، اندرونی ملی بھگت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سمگلنگ جاری ہے۔ حساس اداروں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی رپورٹس تیار کی جا رہی ہیں اور جلد ہی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم دیا جا سکتا ہے۔








