آج کی تاریخ

پولیس ریکارڈ سسٹم میں ہیرا پھیری، ڈیٹا خطرناک مجرموں کا، شناختی کارڈ معمولی ملزموں کا درج

ملتان (افتخار عارف سے) پنجاب پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم میں متعلقہ تفتیشی افسر کی مبینہ سہولت کاری سے طاقتور جرائم پیشہ عناصر محفوظ جبکہ کمزور اور چھوٹے جرائم میں ملوث ہونے والے یا زبردستی کئے جانے والے افراد غیر محفوظ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ملزمان کا مکمل ڈیٹا فیڈ کرنے کے ساتھ شناختی کارڈ نمبر فیڈ کرنے کے حوالے سے اعلیٰ حکام کی طرف سے کیے جانے والے (باقی صفحہ7بقیہ نمبر43)
ناقص ترین فیصلے نے پولیس اہلکاروں کی موجیں لگا دیں اور عوام کو نت نئے انداز میں اذیت دینے و ظلم کرنے کے حوالے سے بدنام ترین پنجاب پولیس جرائم پیشہ افراد اور ڈاکوؤں کو ڈیل کی صورت میں مکمل سہولت کاری فراہم کر دیتی ہے اور یہ تمام تر سہولت کاری مقدمہ درج ہونے اور چالان مکمل ہونے کے بعد کی جاتی ہے جس میں ملزمان کا ڈیٹا تو درست ہوتا ہے مگر شناختی کارڈ نمبر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔تفصیلات کے مطابق جب پولیس کسی گینگ کے ملزمان یا خطرناک سماج دشمن عناصر کو گرفتار کرکے جرم ثابت ہونے اور برآمدگیاں کرنے کے بعد چالان کرتی ہے اور پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم میں ملزمان کی انٹری کا مرحلہ آتا ہے تو تمام تر کوائف نام ولدیت اور سکونیت تو درست لکھے جاتے ہیں مگر شناختی کارڈ نمبر تبدیل کر دیئے جاتے ہیں اور خطرناک ملزمان کے ناموں کے ساتھ شناختی کارڈ نمبر ان کا نہیں لکھا جاتا بلکہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث افراد یا آوارہ گردی میں پکڑے جانے والے افراد یا ذاتی عناد و دشمنی کے طور پر پولیس کے ذریعے گرفتار کروائے جانے والے افراد کے تھانے میں موجود شناختی کارڈ نمبروں کو چالان شدہ ملزمان کے نام کے آگے درج کر دیا جاتا ہے جس سے معمولی جرم میں ملوث ہو کر گرفتار ہونے والا تو پولیس مینجمنٹ سسٹم کے ریکارڈ میں آجاتا ہے مگر خطرناک ملزموں کے نام پولیس ریکارڈ میں سرے سے آتے ہی نہیں لہٰذاہوٹلوں، ایئر پورٹس، سرکاری و نجی ملازمتوں، پاسپورٹ اور ویزوں کے حصول کے لیے چالان شدہ جرائم پیشہ عناصر کو تو مکمل سہولت مل جاتی ہے اور عام شہری، معمولی جرائم میں ملوث یا ذاتی عناد کی بنا پر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والوں کے شناختی کارڈ نمبر پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم میں آجانے کے بعد ان پر جہاں ہر وقت گرفتاری کی تلوار پر لٹکتی رہتی ہے وہاں وہ بیرون ملک بھی سفر نہیں کر سکتے اور نوکریاں بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ پولیس کے تفتیشی افسران اس غلط اندراج سے جہاں ملزمان کو سہولت فراہم کرتے ہیں وہاں اس مد میں کروڑوں روپیہ بھی کما رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں عام شہری پولیس سسٹم کے ہاتھوںرسوا ہو رہے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پنجاب کی وزارت داخلہ پولیس کے اعلیٰ حکام اور سیاسی قیادتیں بھی اس ظلم سے آگاہ ہیں مگر اسے ختم کرنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں اور نہ ہی اس طرح کی غلط انٹری کرنے پر کسی کو سزا دی گئی ہے۔ تمام صورتحال کا سب سے اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ مقدمہ تو ایک عام ایس ایچ او درج کر لیتا ہے مگر پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم سے نام نکلوانے کے لیے پنجاب بھر کے دور دراز کے لوگوں کو بھی لاہور جا کر آئی جی افس سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔پولیس والوں کے لیے کمائی کا ایک اور راستہ کھل گیا ہے جسے مکمل آگاہی ہونے کے باوجود کوئی بھی بند کرنے کو تیار نہیں ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں