ملتان (سٹاف رپورٹر) پاکستانی حکومتوں کی اعلیٰ تعلیم میں دلچسپی کا اندازہ محض اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن کے لیے بھی گورنر پنجاب یا کوئی اہم عہدے دار چھٹی پہ ہو یا پاکستان سے باہر جائے تو فوری طور پر اس کی جگہ دوسرا حلف اٹھاتا ہے مگر صوبہ بھر کے اعلیٰ تعلیمی میدان میں سالہا سال سے اول تو انتظامی نشستیں خالی ہیں اور جہاں کہیں کچھ لوگ کام کر رہے ہیں وہ بھی عارضی اور قائم مقام بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیوں کی صورتحال سب سے بدترین ہے اور حکومت پنجاب کے صوبائی محکمہ تعلیم کی کسی بھی طرح کی کوئی توجہ جنوبی پنجاب کے سرکاری تعلیمی اداروں کی طرف نہیں ہے۔ اس افسوسناک صورتحال کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 50 دن سے ایمرسن یونیورسٹی ملتان بغیر وائس چانسلر ، بغیر پرو وائس چانسلر، بغیر ایک بھی پروفیسر اور غیر قانونی طور پر تعینات ہونے والے رجسٹرار پر چلائی جا رہی ہے۔ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان گجر جو کہ ایک فحش ویڈیو سکینڈل میں ملوث ہو کر کہنے کو تو زیر انکوائری ہیں اور قائم مقام چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی پنجاب کی ہدایت پر ملتان آکر اس کی انکوائری کر چکی ہے اور اپنی ابتدائی رپورٹ میں وائس چانسلر کو قصور وار قرار دے کر ان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کر چکی ہے مگر اس کے بعد یہ معاملہ کہاں رکا ہوا ہے کسی کے علم میںنہیں اور افواہیں یہ تھیں ڈاکٹر رمضان کو محفوظ راستہ دیا جا رہا ہے جس کا پہلا ثبوت عدالت میں ڈاکٹر رمضان کے خلاف جاری مقدمے میں اس وقت سامنے آ گیا جب وہ پیشی پر حاضر نہ ہوئے تو پولیس کی جانب سے یہ رپورٹ جمع کروائی گئی کہ ڈاکٹر رمضان عمرے پر گئے ہوئے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یونیورسٹی کے تمام تر انتظامی معاملات غیر قانونی رجسٹرار ڈاکٹر محمد فاروق چلا رہے ہیں جن کی انکوائری گورنر ہاؤس میں جاری ہے جس کا بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ بتایا گیا ہے کہ 40 روز قبل قائم مقام وائس چانسلر کے لیے حکومت پنجاب کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو قائم مقام وائس چانسلر ایمرسن یونیورسٹی کے لیے تین نام بھجوائے گئے تھے جن میں زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری، تھل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سعید بزدار اور گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر شازیہ انجم کے نام شامل ہیں مگر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کسی بھی نام کو حتمی شکل نہیں دی گئی اور یونیورسٹی کے انتظامی معاملات شدید بد نظمی کا شکار ہیں۔








