ملتان (قوم ریسرچ سیل) حکومت پنجاب نے 60 سال بعد کم و بیش وہی غنڈا ایکٹ معمولی رد و بدل کے بعد دوبارہ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ایوب خان کے دور میں گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نے نافذ کیا تھا۔ حکومت پنجاب کے محکمہ داخلہ نے پنجاب کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ کا مسودہ تیار کر لیا۔ایکٹ میں غنڈوں، بدمعاشوں کی قانونی شناخت واضح کی گئی ہے کہ غنڈہ ایسا شخص ہے جو مجرمانہ سرگرمی یا سماج مخالف رویے میں ملوث ہو، جو امن عامہ کیلئے خطرہ اور عوامی پریشانی کا باعث بننے والا شخص ہو جبکہ کسی بھی شخص کو غنڈہ قرار دینے کا اختیار ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کو دیا گیا۔ یہ کمیٹی پولیس، انتظامیہ اور حساس اداروں کی رپورٹ یا شکایت پر کسی بھی شہری کو غنڈہ قرار دے سکتی ہے۔ اسی طرح منشیات فروشی، جوئے، بھتہ خوری یا ہراسانی میں ملوث شخص کو بھی غنڈہ قرار دیا جا سکتا ہے۔قانون کے مطابق غنڈے بدمعاش شخص کو نو فلائی لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔ اسکا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بلاک کیا جا سکتا ہے جبکہ غنڈے بدمعاش کے بینک اکاؤنٹس منجمد، اسلحہ لائسنس کینسل کیے جا سکتے ہیں۔قانون کے مسودے کے مطابق غنڈوں کی نگرانی کیلئے ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور بائیو میٹرک ڈیٹا کولیکشن کی جا سکے گی اور تحفظات کی صورت میں متاثرہ شخص ڈویژنل، صوبائی یا اپیل کمیٹیوں میں نظر ثانی اپیل دائر کر سکتا ہے جنکی ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں قائم ٹریبونل اپیل پر سماعت کرے گا۔قانونی مسودے کے مطابق ڈی آئی سی کے احکامات کی خلاف ورزی پر 3 سے 5 سال قید اور 15 لاکھ تک جرمانہ ہوگا جبکہ جرم دہرانے والے مجرمان کو 7 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک کے جرمانہ ہوگا۔ سول سوسائٹی، وکلااور شہریوں نے اس بارے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ بھی غنڈوں کی بجائے صرف اور صرف ذاتی عناد دشمنی اور مخالفین کونیچا دکھانے کے لیے استعمال ہو گا۔
