آج کی تاریخ

پانی بطور ہتھیار، قوم بطور دلیل

صدر آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ دریائے سندھ کے پانیوں کے معاہدے کی خلاف ورزی کامیاب نہیں ہوسکتی اور نہ ہوگی، صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک اصولی، قانونی اور اخلاقی مؤقف ہے جس کے پیچھے تاریخ، بین الاقوامی قانون، ماحولیاتی حقائق اور انسانی بقا کی منطق کھڑی ہے۔ پانی کو ہتھیار بنانے کا تصور دراصل اس صدی کی سب سے خطرناک جغرافیائی سیاسی لغزش ہے، کیونکہ تیل یا گیس کے برعکس پانی وہ وسیلہ حیات ہے جس کے بغیر کوئی معاشرہ، کوئی ریاست اور کوئی تہذیب قائم نہیں رہ سکتی۔ جب صدر نے دوحہ میں ’’دوسری عالمی سماجی ترقی سربراہی کانفرنس‘‘ کے منبر سے یہ بات کہی کہ ایک طرف ہم موسمیاتی تبدیلی کے کوڑے سہہ رہے ہیں اور دوسری طرف ہمیں پانی کے ہتھیار سے دھمکایا جا رہا ہے، تو یہ دراصل جنوبی ایشیا کے پورے خطے کو آئینہ دکھانے کے مترادف تھا: کہ جو چیز سب کی سانجھی ہے، اسے سیاست کی صلیب پر چڑھانے کا نتیجہ سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔
بھارت نے رواں برس اپریل میں مقبوضہ کشمیر کے پہلگام واقعے کے بعد، جس کی ذمہ داری اسلام آباد پر بے ثبوت عائد کی گئی، دریائے سندھ کے پانیوں کے معاہدے کو معطل رکھنے کا اعلان کیا۔ پاکستان نے بجا طور پر اسے ’’جنگی اقدام‘‘ کے ہم معنی قرار دیا کیونکہ ویانا کنونشن برائے معاہدات 1969 کی رو سے اور خود دریائے سندھ کے پانیوں کا معاہدہ 1960 کی ساخت کے اعتبار سے یکطرفہ معطلی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ بین الاقوامی قانون کی زبان میں ایسی حرکت ’’معاہداتی ذمہ داریوں کی بنیادی خلاف ورزی‘‘ کہلاتی ہے۔ مستقل ثالثی عدالت (ہائےگ) نے جون میں اپنے ضمنی فیصلے میں واضح کیا کہ بھارت یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل نہیں رکھ سکتا۔ بھارت کی طرف سے عدالتِ ثالثی کو نہ ماننے کا اعلان قانون کے بجائے طاقت کے زعم کا بیان ہے؛ لیکن بین الاقوامی قانون کی روایتیں طاقت کے یکطرفہ بیانیے سے کہیں زیادہ دیرپا ثابت ہوئی ہیں، خصوصاً جب معاملہ سرحد پار دریاؤں کے مشترکہ استعمال جیسے انسانی بقا سے جڑے سوال پر ہو۔
دریائے سندھ کے نظام کے مغربی تین دریا — سندھ، جہلم اور چناب — پاکستان کے ’’غیر مقید استعمال‘‘ کے لیے مخصوص کیے گئے تھے، جب کہ مشرقی تین دریا — راوی، بیاس اور ستلج — بھارت کو دیے گئے۔ اس سادہ تقسیم کے پیچھے ایک پیچیدہ مگر واضح اصول کارفرما تھا: اوپری دھار والا ملک نچلی دھار والے ملک کے حقِ استعمال کو نقصان نہ پہنچائے اور اگر رن آف دی ریور نوعیت کے منصوبے بنائے بھی تو ان کی ساخت، مقدارِ ذخیرہ اور بہاؤ کے قواعد معاہدے کے عین مطابق ہوں۔ مستقل ثالثی عدالت نے اگست کے فیصلے میں اسی اصول کو پھر دہرا دیا کہ مغربی دریاؤں پر پن بجلی منصوبوں کا ڈیزائن ’’معاہدے میں درج سخت تقاضوں‘‘ کے مطابق ہوگا، نہ کہ محض ’’انجینیئرنگ کے مثالی طریقوں‘‘ کی بنیاد پر؛ اور بنیادی قاعدہ یہی رہے گا کہ مغربی دریاؤں کے پانی ’’عمومی طور پر‘‘ پاکستان کے لیے بہتے رہیں۔
یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ہوگا: پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی سب سے شدید ضرب ’’وقت‘‘ کے ہتھکنڈے سے آتی ہے — یعنی بہاؤ کی غیر متوقع بندش یا اچانک ریلے چھوڑ دینا، جس سے پہلے کھیت سوکھ جاتے ہیں اور پھر کیچڑ سے پٹ جاتے ہیں۔ چناب پر ’’ریزروائر فلشنگ‘‘ جیسی یکطرفہ کارروائیاں، جن کا پہلے سے اطلاع دینا لازم ہے، اگر سیاسی اشاروں پر کی جائیں تو وہ صرف ایک ملک کے کھیت نہیں اجاڑتیں، پورے سرحدی ماحولیاتی نظام کو غیر مستحکم کر دیتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں صدر کے الفاظ قانونی جدل سے بڑھ کر اخلاقی ذمہ داری کا اعلان بن جاتے ہیں: ’’پانی انسانیت کا مشترکہ حق ہے‘‘ — اور مشترکہ حقوق پر سیاست کی لٹھ نہیں چلتی۔
لیکن بات صرف ’’ردِ عمل‘‘ کی نہیں، ’’عمل‘‘ کی بھی ہے۔ صدر نے دوحہ میں جہاں پانی کی سیاست پر انتباہ کیا، وہیں سماجی انصاف، جامع ترقی اور عالمی یکجہتی کی جو بات کی — دوحہ سیاسی اعلامیہ کی حمایت، غربت کے خاتمے، باعزت روزگار، مساوات اور انسانی حقوق کی توثیق — وہ دراصل داخلی طاقت کی ازسرِ نو تعمیر کا خاکہ بھی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مثال دے کر انہوں نے بتایا کہ نو ملین سے زائد خاندانوں کی مالی، طبی اور تعلیمی مدد کسی خیراتی جذبے کے تحت نہیں بلکہ ایک باقاعدہ سماجی تحفظ ماڈل کے طور پر کی گئی، جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ داخلی سماجی ڈھانچے کی مضبوطی ہی خارجی چیلنجوں کے مقابلے میں ریاست کی ’’ثابت قدمی‘‘ ہوتی ہے۔ پانی کے محاذ پر ہماری سفارت کاری اتنی ہی مؤثر ہوگی جتنی ہماری معیشت، ہمارے ادارے، اور ہماری سماجی مہارتیں اندر سے مضبوط ہوں گی۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ صدر نے پائیدار ترقی کے اہداف پر زور دیتے ہوئے شرح خواندگی کو نوّے فیصد تک لے جانے اور پانچ برس میں ہر بچے کے اسکول جانے کا ہدف رکھا، نیشنل یوتھ انٹرن شپ پروگرام، سبز اور لچکدار رہائش، اور منگروو بحالی جیسے قدرتی بنیادوں پر حل کا حوالہ دیا۔ اس کے پس منظر میں سادہ سی منطق ہے: جو ملک اپنے انسانی سرمائے اور قدرتی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرے گا، وہ پانی کے بحران میں کمزور فریق نہیں رہے گا۔ پانی کی سیاست کے ساتھ پانی کی سائنس لازم ہے — ذخائر کی معقول منصوبہ بندی، بارشوں کے پانی کی ذخیرہ اندوزی، جدید آبپاشی، فصلوں کی نوعیت اور زرعی کیلنڈر کا موسمیاتی ڈیٹا سے ربط — یہ سب اندرونی ڈھال ہیں جو بیرونی دباؤ کی دھار کند کرتی ہیں۔
خارجی محاذ پر حکمتِ عملی واضح ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے فورمز، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی عدالتی فورمز پر مقدمہ اصولی بنیادوں پر لڑا جائے: کہ سرحد پار دریاؤں کے قانون میں ’’مناسب و منصفانہ استعمال‘‘ کے اصول کے ساتھ ’’شدید نقصان نہ پہنچانے‘‘ کی شق بنیادی ہے۔ اگر اوپری دھار والا ملک اپنی داخلی سیاست کے تقاضوں پر بہاؤ کے نظم میں ایسا اتار چڑھاؤ پیدا کرتا ہے جس سے نچلی دھار کی خوراکی سلامتی، زرعی پیداوار اور پینے کے پانی تک رسائی متاثر ہو، تو یہ خلافِ قانون بھی ہے اور خلافِ انسانیت بھی۔ یہاں ویانا کنونشن برائے معاہدات کی خلاف ورزی کے علاوہ ’’بین الاقوامی ذمہ داری‘‘ کے عمومی اصول بھی کارفرما ہیں، جن کے مطابق نقصان دہ فعل کا ازالہ، تیقن اور عدم تکرار کی ضمانتیں لازمی بنتی ہیں۔
بھارت کا مستقل ثالثی عدالت کے فیصلوں کو سرے سے نہ ماننے کا مؤقف کوئی نئی بات نہیں؛ لیکن عالمی سطح پر اس روش کی سیاسی قیمت ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب دنیا موسمیاتی بحران، پانی کی کمی اور سرحد پار ماحولیاتی تنازعات کے پرخطر دور سے گزر رہی ہو۔ جو ملک اپنے دروازے قانونی عمل پر بند کرتا ہے وہ سفارتی طور پر تنہا ہوتا ہے، اور جو ملک قانون کی چھتری کے نیچے آتا ہے وہ کمزور نہیں پڑتا—وہ قوی ہوتا ہے کیونکہ اس کی دلیل طاقت سے نہیں، اصول سے کشید ہوتی ہے۔ پاکستان کو اسی اصولی راستے پر چلنا ہوگا: قانونی چارہ جوئی، شواہد پر مبنی سفارت کاری، اور ماحولیاتی انصاف کی اخلاقی زبان۔
صدر نے فلسطین میں ’’نسل کشی، نسلی امتیاز اور اجتماعی بھوک‘‘ کی مذمت کی اور کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل پر زور دیا۔ یہ محض جذباتی ہم آہنگی نہیں، سفارت کاری کا منطقی ربط ہے: کہ اگر آپ عالمی برادری سے اصولی فیصلے کی توقع رکھتے ہیں تو آپ کو خود بھی اپنے کیس کو اصول کی زبان میں پیش کرنا ہوگا۔ پانی کے معاملے میں بھی یہی منطق کارگر ہے — انسانی حقوق، سماجی انصاف اور قانون کی بالادستی کا پورا بیانیہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ کسی ایک جگہ پر اصول سے انحراف، دوسرے مقام پر دلیل کی کمزوری بن جاتا ہے۔
اندرونِ ملک ہمیں تین محاذوں پر بیک وقت پیش رفت چاہیے۔ اوّل، آبی سفارت کاری اور ڈیٹا شفافیت: سرحد پار بہاؤ کے اعداد و شمار، ڈیم آپریشن کے شیڈیول اور ہائیڈرولوجیکل انفارمیشن کے تبادلے کے فریم ورک کو جدید ڈیجیٹل توثیقی نظام کے ساتھ لازم کیا جائے، تاکہ اچانک بہاؤ میں تغیر کی سیاسی تاویلیں بے نقاب ہوں۔ دوم، آبی معیشت کی اصلاح: آبپاشی کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے لیزر لیولنگ، ڈرپ اور اسپرنکلر نظام، لائننگ نہروں، اور کھالوں کی مرمت کو قومی ہنگامی پروگرام کے طور پر لیا جائے؛ پانی کی قیمت گذاری میں سماجی انصاف اور پیداواری منطق کو جوڑ کر سماجی تحفظ کے بفر کے ساتھ تدریجی اصلاحات کی جائیں۔ سوم، وفاقی-صوبائی ہم آہنگی: پانی کی تقسیم پر اعتماد سازی کے لیے بین الصوبائی رابطہ کونسل کے اندر مستقل آبی کمیٹی کو تکنیکی خودمختاری اور شفاف اشاعت کا مینڈیٹ دیا جائے۔ جب اندرونی مکان مضبوط ہوگا تو بیرونی آندھی بھی دروازہ نہ توڑ سکے گی۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ہم پانی کے ’’امن‘‘ کو علاقائی معاشی تعاون کے ’’نفع‘‘ سے جوڑیں۔ اگر جنوبی ایشیا تجارت، توانائی کے تبادلوں اور ماحولیاتی موافقت کے مشترکہ منصوبوں کی طرف بڑھتا ہے تو پانی کو ہتھیار بنانے کی ترغیب خود بخود کم ہوگی۔ اعتماد افزا اقدامات — جیسے مشترکہ سیلابی انتباہی نظام، گلیشیائی تحقیق کے مشترکہ مشن، اور خشک سالی کے انتظامی پروٹوکول — نہ صرف سائنسی طور پر مفید ہیں بلکہ سفارتی طور پر کشیدگی گھٹاتے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں