ملتان (قوم ریسرچ سیل ) ملتان کی مختلف یونین کونسلز میں واسا کے تحت جاری پانی کی فراہمی کے متعدد منصوبوں میں سنگین بے ضابطگیوں اور مبینہ کرپشن کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ذرائع کے مطابق یہ منصوبے یونین کونسلز نمبر 10، 11، 12، 13، 14، 15، 16، 17، 18، 19، 63 اور 64 میں شروع کیے گئے۔ تکمیل کی مدت جان بوجھ کر بڑھائی گئی جس کے نتیجے میں قیمتوں میں رد و بدل کی مد میں تقریباً 10 کروڑ روپے کا اضافی خرچ سامنے آیا۔رپورٹس کے مطابق صرف دو یا تین یونین کونسلز میں جزوی کام مکمل کیا گیاجبکہ13سے 14 یونین کونسلز کو محض ورک آرڈر میں شامل کیا گیا لیکن عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سکیموں کا اصل مقصد پانی کی فراہمی کی بحالی نہیں بلکہ ذاتی اور مالی مفادات کا حصول تھا۔تکنیکی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ منصوبوں کے نقشے اور ڈیزائن کسی غیر مستند فرد نے تیار کیے اور تنگ گلیوں میں 4 انچ کے بجائے 8، 10 اور 12 انچ قطر کے پائپ ڈالے گئے جو ماہرین کی سفارشات کے خلاف ہیں۔ مزید انکشاف ہوا کہ کاسٹ آئرن (CI) کے بجائے غیر معیاری پی وی سی پائپ استعمال کیے گئے جبکہ ایئر والو اور سلوائس والو بھی کم معیار کے تھے۔قاسم پور کالونی اور قریبی علاقوں میں 4 انچ پائپ کی جگہ 8 انچ پائپ کے جعلی بل تیار کیے گئے جس سے مبینہ طور پر انجینئرز اور ٹھیکیداروں نے ملی بھگت سے لاکھوں روپے کے جعلی بل منظور کرائے۔ شواہد کے مطابق سی آئی ٹی کے بجائے سٹیل کلیمپ استعمال کیے گئے اور 8x8x4 ٹی کی جگہ 8×4 کلیمپ لگائے گئے۔ روزنامہ قوم ملتان کو حاصل تصاویر میں غیر معیاری میٹریل کے استعمال کے ثبوت موجود ہیں۔مزید برآںنواز شریف یونیورسٹی کے قریب ایک کینیڈین کمپنی کی جانب سے پہلے بچھائی گئی 12 انچ ایچ ڈی پائپس جو ابھی تک کمیشن نہیں ہوئیں تھیں، وہاب انجینئرنگ کی جانب سے ہٹا کر 12 انچ یو پی وی سی لائنز نصب کر دی گئیں جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔ اس ضمن میں ڈائریکٹر ورکس عبدالسلام، ظفرگرمانی اور دیگر افسران پر ملوث ہونے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ذرائع نے مطالبہ کیا ہے کہ پورے منصوبے کا ریکارڈ فوری طور پر ضبط کیا جائے، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی تکنیکی ٹیم کی نگرانی میں سکیم کا مکمل معائنہ کیا جائے اور استعمال شدہ میٹریل کو یو ای ٹی لاہور کی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا جائے۔جب مؤقف کے لیے رابطہ کیا گیا تو واسا ملتان کے منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ انہیں ان بے ضابطگیوں یا منظوریوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ سابق ڈائریکٹر انجینئرنگ عبدالسلا، جو اس وقت واسا لاہور میں تعینات ہیں، سے واٹس ایپ پر رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے فون یا پیغام کا جواب نہیں دیا۔ڈپٹی ڈائریکٹر عمر ظفر گرمانی نے ان الزامات کوبےبنیاد ، من گھڑت، گمراہ کن اور ذاتی مفادات کے تحت پھیلائے گئےقرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام کام منظور شدہ پی سی ون، تصدیق شدہ ڈیزائنز اور کوالٹی اشورنس کے معیار کے مطابق کیے گئے۔انہوں نے وضاحت کی کہ پائپ کے قطر ہائیڈرولک ڈیمانڈ اسٹڈی اور مستقبل کی آبادی کے تخمینوں کی بنیاد پر منتخب کیے گئے، نہ کہ من مانی طور پر۔ مواد کی خریداری اور تنصیب مکمل طور پر ٹینڈر کی شرائط اور تکنیکی معیار کے مطابق کی گئی اور ضرورت کے مطابق تیسرے فریق سے تصدیق بھی کرائی گئی۔عمر گرمانی کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں رد و بدل کے تمام دعوے سرکاری قواعد کے مطابق آڈٹ اور فیلڈ ویریفکیشن کے بعد ہی منظور کیے گئے، لہٰذا مالی بے ضابطگی کے الزامات انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں پائپوں کی تبدیلی نظام کی مطابقت اور دیرپا کارکردگی کے لیے کی گئی، نہ کہ کسی ذاتی مقصد کے تحت۔ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی بھی مستند ادارے مثلاً یو ای ٹی لاہور سے تکنیکی جانچ کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، شفافیت ہماری اولین ترجیح ہے، اور تمام ریکارڈ واسا کے دفتر میں دستیاب ہے جس کا کسی بھی وقت معائنہ کیا جا سکتا ہے۔








