ملتان (سٹاف رپورٹر) نامعلوم میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والے ملتان کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات کی توجہ یونیورسٹیوں پر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ جس میں ایک صوبائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جن کا تعلق اسلام آباد سے ہے وہ ہفتے میں صرف 2 دن ملتان آتے ہیں۔ باقی 3 دن کسی نا کسی کانفرنس، میٹنگ، یا کسی اور بہانے سے اپنی فیملی کے پاس اسلام آباد ہی میں پائے جاتے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ٹی اے، ڈی اے بھی مکمل وصول کرتے ہیں۔ ایک اور صوبائی یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے چارج سنبھالنے کے 4 ماہ گزرنے کے باوجود صرف ایک دن ملتان میں گزارا اور وہ بھی محض چارج لینے کے لیے انہیں ویل چیئر پر انا پڑا، ان وائس چانسلر کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہے تو وہ اپنی علالت کے باعث ملتان نہیں آ سکیں جبکہ مکمل تنخواہ اور مراعات وصول کر رہی ہیں۔ اس یونیورسٹی کے تمام تر معاملات وائس چانسلر کے ہونے کے باوجود پرو وائس چانسلر سنبھال رہی ہیں جن کا بھی زیادہ تر فوکس دوسرے شہروں بشمول لاہور، اسلام آباد اور بہاولپور کے وزٹس پر ہی ہوتا ہے اور ان ٹورز کی مد میں بھاری ٹی اے ڈی اے وصول کیے جا رہے ہیں۔ ایک صوبائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو دوران ٹینیور دوسری یونیورسٹی کا مستقل چارج ملنے پر وہاں کے وائس چانسلر کا عہدہ تاحال 3 ہفتے سے خالی ہے۔ ایک اور صوبائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی ریٹائرمنٹ کے 1.5 سال گزرنے کے باوجود وہاں وائس چانسلر تعینات نہیں ہو سکے۔ اس یونیورسٹی کا انتظام بھی پرو وائس چانسلر کے پاس ہے جو قائم مقام ہونے کے باوجود مکمل اختیارات استعمال کر رہے ہیں انہیں عدالتی اشیرواد بھی حاصل ہیں جبکہ ایک اور صوبائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر غیر قانونی طور پر 67 سال کی عمر میں بھی غیر تدریسی تجربے کی بنیاد پر تعینات ہیں موصوف نے یونیورسٹی میں فیس بک پر تشہیر کے علاوہ کوئی کارنامہ سر انجام نہ دیا ہے اور خود غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں بھی غیر قانونی کاموں کی بھرمار کر رکھی ہے مگر ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور گورنر آفس اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ جبکہ ملتان میں قائم پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں کسی بھی یونیورسٹی میں گورنر یا گورنمنٹ کی جانب سے کوئی بھی ریگولر وائس چانسلر یا ریگولر ریکٹر تعینات نہیں کیا جا سکا۔ پنجاب میں حکمرانوں کی اعلی سطح کی تعلیمی دلچسپی انہی فیصلوں سے عیاں ہو رہی ہے۔
