ملتان (سٹاف رپورٹر) اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کی پروفیسر کو نکاح کے بعد طلاق دینے کے باوجود مسلسل ازدواجی تعلق قائم رکھنے کے الزام میں جیل میں قید فاریسٹری ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر احسان قادر بھابھہ کے حوالے سے مزید انکشافات سامنے آئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ طلاق یونین کونسل میں رجسٹر ہونے کا ثبوت ملنے کے بعد گزشتہ ماہ 22 ستمبر بروز سوموار فاریسٹری ڈیپارٹمنٹ ہی کے ایک پروفیسر کی موجودگی میں پروفیسر ڈاکٹر شازیہ افضل نے ڈاکٹر بھابھہ کے دفتر جا کر انہیں یہ پیشکش بھی کی تھی کہ ان پر بہت سی انگلیاں اٹھ رہی ہیں، آپ ایسا کریں کہ صرف ایک ولیمہ کی مختصر سی تقریب منعقد کرکے چند دوستوں کو کھانا کھلا دیں تاکہ میرا بھرم رہ جائے اور اس کے بعد بے شک آپ چند ہفتوں ہی میں طلاق کا اعلان کر دیں، میری ڈیپارٹمنٹ اور طلبا و طالبات کی نظر میں عزت رہ جائے گی تاہم اس سادہ مگر واضح پیشکش کے باوجود ڈاکٹر احسان قادر نے اس پیشکش کو کافی دیر خاموشی اختیار کرنے کے بعد رد کر دیا۔ ذرائع کے مطابق 21 ستمبر بروز اتوار ڈاکٹر بھابھہ نے ڈاکٹر شازیہ سے ملاقات بھی کی تھی اور دونوں کے درمیان مذاکرات بھی ہوتے رہے مگر نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر شازیہ کے گھر پر جہاں پر یہ ملاقات ہوئی وہاں ان کی موجودگی کے ثبوت بھی پولیس نے سیل کرکے فارنزک لیب کو لاہور بھجوا دیئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ضلع بہاولپور اور ضلع مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے دو اراکین اسمبلی بھی ڈاکٹر احسان قادر کو بچانے کیلئے زور لگا رہے ہیں اور بعض اعلیٰ افسران بھی اپنی پوری کوشش کے باوجود فرانزک رپورٹ پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈی ایچ اے پولیس نے ڈاکٹر شازیہ کے گھر سے جو نمونے اور اشیالے کر سیل کرنے کے بعد فرانزک کے لیے بھجوائی تھیں وہ ڈاکٹر احسان قادر کو ملزم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اسی لیے ڈاکٹر احسان قادر کے قریبی لوگ نہ صرف ڈاکٹر شازیہ پر دباؤ ڈالے ہوئے ہیں بلکہ اس کے والدین حتیٰ کہ بہنوئی سے بھی رابطے کر چکے ہیں اور ان پر دن بدن دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسکے ساتھ ہی یونیورسٹی ہی کے ایک گروپ کی طرف سے اپنے پہلے خاوند، دونوں بچوں سے محروم ہونے کے باوجود دو مرتبہ طلاق کی اذیت کا سامنا کرنے والی ڈاکٹر شازیہ کی یہ کہہ کر کردار کشی کی جا رہی ہے کہ جھنگ کے ایک پروفیسر مجید کے ذریعے ڈاکٹر شازیہ نے 15 تولے سونا اور 10 ایکڑ زمین اپنے نام منتقل کروانے کی شرط پر صلح اور معاف کرنے کا عندیہ دیا ہے مگر ڈاکٹر شازیہ کے قریبی ذرائع اس الزام کی سختی سے تردید کر رہے ہیں۔ پروفیسر مجید کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ان کے دوسرے نکاح کی تقریب میں بھی شامل تھے۔








