آج کی تاریخ

سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی

تازہ ترین

ناقص حکومتی پالیسی، گندم مافیا کامیاب، 50 سال پرانا بھٹور فارمولا زندہ کرنے کا فیصلہ

ملتان (سٹاف رپورٹر) پنجاب بھر کے کاشت کار کی گندم دو ہزار روپے سے 2200 روپے فی من فروخت ہو کر ذخیرہ اندوزوں کے کنٹرول میں آنے کے چار ماہ بعد اب حکومت نے گندم کی قیمت رواں سال کے لیے 3 ہزار روپے فی من جبکہ اگلے سال کے لیے35 سو روپے مقرر کرنے فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب میں یہ پہلا موقع تھا کہ غیر ملکی کمپنیوں نے بھی گندم کی خریداری میں حصہ لیا اور پنجاب کے کاشت کاروں سے سب سے زیادہ گندم ایل ڈی سی نامی ایک غیر ملکی فرم نے خریدی اور پاکستان میں بڑے بڑے گودام کرائے پر لے کر ان میں سٹاک کر لی۔ ایل ڈی سی نے کاشت کار سے 2100 روپے سے00 22 روپے فی من کے حساب سے چار ماہ قبل گندم خریدی اور صرف چار ماہ کے عرصے میں اس گندم میں 1300 روپے فی من کا اضافہ کرکے اب اسے فروخت کیا جا رہا ہے اور اس طرح کھربوں روپے کا منافع یہ ذخیرہ اندوز حکومت پنجاب کی ناقص پالیسی کی وجہ سے کما لیں گے۔ بتایا جا رہا ہے کہ حکومت اگلے سالوں سے یہ فیصلہ کرنے جا رہی ہے کہ براہ راست کاشتکار سے گندم خریدنےکے بجائے 50 سال پرانا بھٹودورکافارمولا واپس لایا جائے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے مڈل مین کا کردار ختم کرتے ہوئے صوبائی سطح پر محکمہ خوراک کو زیادہ مضبوط کیا اور وفاقی سطح پر پاسکو جیسا ادارہ قائم کیا جو ملک بھر کے مخصوص پوائنٹس سے گندم خرید کر سٹاک کرتا اور پھر آزاد کشمیر ،گلگت و پاکستان کے جس بھی صوبے میں گندم کی قلت ہوتی فوری طور پر وہاں گندم کی ترسیل کر دی جاتی ہے۔ اس طرح گزشتہ 50 سال کے دوران کبھی بھی پاکستان میں گندم کا شدید بحران پیدا نہیں ہو سکا کیونکہ مڈل مین اور ذخیرہ اندوز کا کردار مکمل طور پر ختم نہ بھی ہو سکا تو بہت حد تک محدود کر دیا گیا تھا اور مڈل مین محض غلہ منڈیوں کے آڑھتیوں کی صورت میں یا تو پھر گندم کی آڑھت لیتے ہیں یا چند سو من گندم سٹا ک کر کے معمولی منافع پر گزارا کرتے۔ 50 سال بعد صوبے میں پہلی مرتبہ جب سرکار نے گندم خریدنے سے انکار کیا تو بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوز، شوگر مافیا ،پولٹری انڈسٹری سے وابستہ لوگ حتیٰ کہ عالمی ذخیرہ اندوز کمپنیاں بھی پاکستان میں گندم خریدنے لگیں اور جس حساب سے انہوں نے گندم خریدی اس سے گندم کے اس کاروبار سے سالہا سال سے وابستہ لوگ اس شک کا اظہار کر رہے تھے کہ اب یہ ذخیرہ اندوز جو کہ پہلے ہی بہت منظم اور مضبوط ہیں، حکومت سے اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند سال پہلے تک ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان باہر سے گندم منگوایا کرتی تھی مگر پھر پالیسی چینج ہوئی اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے بجائے نجی شعبے کو گندم کی امپورٹ کے لائسنس دیئے گئے اور پھر اس کے نتیجے میں ایسی ایسی غلیظ، غیر معیاری اور زہریلی گندم نے پاکستانی عوام کے روزے رکھوائے اور کھلوائے جو اس سے قبل کبھی بھی پاکستان میں نہیں لائی گئی تھی۔ موجودہ حکومتی پالیسی سے ذخیرہ اندوز کی چاندی ہو گئی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں