آج کی تاریخ

سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل کی نئی تشکیل، جسٹس جمال مندوخیل اہم عہدوں پر نامزد-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن کی ازسرِ نو تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-بچوں کیخلاف جرائم میں ملوث لوگ سماج کے ناسور ہیں، جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے: وزیراعلیٰ پنجاب-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-پشاور ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی-خیبر پختونخوا: بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج کے 15 دہشت گرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی

تازہ ترین

نئے صوبوں سے چند گھروں کی گرفت ختم، بھارت کی طرح سیاست عام آدمی کے پاس: میاں عامر

ملتان(سٹاف رپورٹر) 78 سال کے تجربے ناکام ہو گئے۔ آگے بڑھنا اور ملک کو ترقی کے راستے پر ڈالنا ہے تو نئی صوبے بنانا پڑیں گے۔ امریکاجو سب سے بڑی عالمی قوت ہے کہ تمام تر قوت اس کی 50 سٹیٹس ہیں۔ بھارت نے 78 سالوں میں9 سے 39 صوبے بنا لئے مگر ہم آج بھی 4 صوبوں پر کھڑے ہیں۔ 13 کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب میں کسی طور پر بھی گورننس بہتر نہیں ہو سکتی ۔یہ ملک اب مزید تجربات کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ۔اسی لیے پاکستان میں عوامی مسائل حل کرنے ہیں تو پھر نئے صوبے بنانا پڑیں گے جن کی قدرتی تقسیم پہلےہی سے موجود ہے۔ ان خیالات کا اظہار چیئرمین پنجاب گروپ آف کالجز اور سابق ضلع ناظم لاہور میاں عامر محمود نے عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں یونیورسٹی آف سدرن پنجاب میں چیئرمین سپیریئر گروپ آف کالجز ڈاکٹر عبدالرحمان کے ہمراہ عمائدین شہر اور طلباوطالبات کے علاوہ ماہرین تعلیم اور رائے عامہ کے رہنماؤں سے ایک ملاقات کے دوران کیا۔ میاں عامر محمود نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ کے بغیر ترقی ناممکن ہے اور جتنے زیادہ صوبے ہوں گے اتنا ہی صحت مند مقابلہ ہوگا جبکہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ سرکاری مشینری کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اخراجات اور پروٹوکول کم ہوگا کیونکہ حکومتی نیٹ ورک اور انفراسٹرکچر تو پہلے ہی سے موجود ہے ۔ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ لوکل گورنمنٹ کے نظام کو باقاعدگی سے چلنے ہی نہیں دیا گیا۔ مارشل لا آیا تو لوکل گورنمنٹ سسٹم آگیا اور مارشل لا ختم ہوا تو لوکل گورنمنٹ کا نظام وائنڈ اپ، اسی شہر ملتان میں ریجنل سول سیکرٹیریٹ پر آٹھ ارب ضائع کر د ئیےگئے مگر اسے فعال نہ کیا گیا ۔میاں عامر محمود نے کہا کہ عدالتوں کی حالت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کے پاس چار ہزار مقدمات جبکہ ہائی کورٹ کے جج کے پاس 3 ہزار مقدمات ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ قتل کا مقدمہ بھی 15 سے 18 سال لے جاتا ہے جبکہ دیوانی مقدمات تو انسان کو دیوانہ کر دیتے ہیں اور فیصلے ہی نہیں ہو پاتے۔ انہوں نے ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن کا سب سے بڑا سبب علاقائی غیر مساوی فنڈز کی تقسیم ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ 25 ملین بچے سکول ہی نہیں جا رہے۔ اگر چھوٹے صوبے بنا دیئےگئےتوپاکستان میں بھی بھارت کی طرح سیاست عام آدمی کے پاس چلی جائے گی اور سیاست پر چند گھرانوں کی گرفت اسی طرح ختم ہو جائے گی جیسے بھارت میں ختم ہوئی ہے۔ اتنے بڑے صوبوں میں ہمارے لیڈروں کو کسی بھی قسم کے احتساب کا کوئی خوف نہیں۔ اس موقع پر رائے عامہ کے نمائندگان ،پروفیسر حضرات اور طلبا و طالبات نے درجنوں سوالات کیے جن کا بہت حوالہ جات سے بہت مدلل جواب میاں عامر نے دیا۔ آگاہی سیشن میں ملک کے تعلیمی اور کاروباری شخصیات نے شرکت کی جس میںچیئرمین یو ایس پی عاصم نذیر احمد، ڈائریکٹر جنرل یو ایس پی ثاقب نذیر احمد اور ڈائریکٹر فنانس یاسر نذیر بھی موجود تھے ۔ چیئرمین ایپ سپ پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان نےخطاب میں کہا کہ دنیا بھر میں قیادت کا بحران موجود ہے، لیکن نبی کریمؐ نے کم وسائل میں بھی عظیم تبدیلیاں کیں۔ ہمارے پاس لیڈرشپ کا ایسا ماڈل موجود ہے جو مغرب کے پاس بھی نہیں۔ ہمیں اپنے کردار کو بہتر بنانا ہوگا اور نوجوان قیادت کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے میاں عامر محمود کو قوم کے محسن کے طور پر سراہا اور کہا کہ انہوں نے پاکستان کو 400 کالجز اور 3 یونیورسٹیاں عطا کیں اور تعلیمی شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا۔پروفیسر عبدالرحمان نے جنوبی پنجاب کی ترقی پر بھی زور دیا اور کہا کہ ڈی جی خان اور بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے تاکہ قیادت کے فقدان کو دور اور ترقی کے نئے مواقع فراہم ہوں۔چیئرمین یو ایس پی عاصم نذیر احمد نے صوبوں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں یونیورسٹیوں میں تعلیمی ڈائیلاگ کا آغاز ہونا چاہیے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں