آج کی تاریخ

ghost research papers, public universities, international journals, academic fraud, fake research, investor services, academic misconduct, research ethics, university scandals, academic integrity

معلومات پبلک: صرف6 جامعات کا 77 فیصد سکور، جنوبی پنجاب کی کوئی نہیں، کارگردگی مشکوک

ملتان (سٹاف رپورٹر) فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب کے سرکاری ادارے معلومات کو پبلک کرنے کے حوالے سے بہت سست روی کا شکار ہیں اور عام پبلک کی معلومات تک رسائی کے قانون پر بھی عمل پیرا نہ ہو رہے ہیںجس سے ان اداروں میں شفافیت بالکل واضح نہیں ہے۔ فافن نے اپنے جائزے میں پنجاب کے 253 سرکاری اداروں کی ویب سائٹ کا جائزہ لیا۔ جن میں خاص طور پر یونیورسٹیاں معلومات پبلک نہ کرنا چاہتی ہیں اور نہ ہی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ پر عمل کر رہی ہیں۔ جس کی بابت فافن پنجاب ٹرانسپیرنسی نے اپنی رپورٹ شائع کی ہے۔ فافن نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا کہ صوبہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں شفافیت میں بہت بڑا خلا موجود ہے۔فافن نے یہ نتائج افواہوں کا مقابلہ معلومات سے کرنے کی مہم کے سلسلے میں اپنے سروے میں مرتب کئے۔ فافن کے مطابق سرکاری اور اصل معلومات کی عدم فراہمی سے افواہوں کو ہوا ملتی ہے جس سے اداروں کا اعتبار متاثر ہوتا ہے اور ان پر عوام کا اعتماد بھی کم ہوتا ہے۔رپورٹ کے مطابق پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت عوام کو درکار اور پیشگی معلومات کی فراہمی کے حوالے سے سب سے زیادہ تعمیل کرنے والی یونیورسٹیوں میں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز، یونیورسٹی اف ایگریکلچر فیصل آباد، یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور ، یونیورسٹی آف دی پنجاب لاہور ، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور 77 فیصد معلومات کو آفیشل ویب سائٹ پر پبلک کرنے کے حوالے سے نمایاں رہیں۔ فافن کے مطابق جنوبی پنجاب کی کوئی بھی یونیورسٹی اپنی معلومات کو پبلک کرنے کے حوالے سے نہایت مشکوک رہی۔ 147 خود مختار اداروں جن میں پنجاب بھر کی تمام یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں میں سے صرف چار اداروں نے 80 فیصد کی تعمیل کی شرح کو عبور کیا۔ 13 ادارے 71-80 فیصد کی حد میں شامل تھے جبکہ 36 ادارے 61-70 فیصد کے درمیان تھے۔ بیشتر خود مختار ادارے 41-50 فیصد (36 ادارے) اور 51-60 فیصد (40 ادارے) کی حدود میں مرکوز تھے۔ سولہ ادارے 31-40 فیصد کے درمیان تھے اور ایک ادارہ 21-30 فیصد کی حد میں شامل تھا۔ چنانچہ خود مختار ادارے شفافیت اور معلومات کو پبلک نہ کرنے کے حوالے سے صرف 51% کی اوسط پر برقرار رہے۔ یاد رہے کہ خود مختار ادارہ ایک بورڈ، کارپوریشن، ادارہ، تنظیم، اتھارٹی، یا دیگر ادارہ ہوتا ہے جو پنجاب حکومت کے ذریعہ قائم کیا جاتا ہے۔ ایک خود مختار ادارہ اپنے قانون اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد و ضوابط کے مطابق چلتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی پاکستان بھر میں ریگولر وائس چانسلرز کی تعیناتی کے کیس نمبر سی پی 07/2024 مورخہ 24 اکتوبر 2024 میں اس جانب سختی سے ہدایات جاری کر چکی ہے کہ تمام یونیورسٹیاں اپنی تمام تر معلومات کو پبلک کریں تاکہ شفافیت کا عنصر قائم رہے مگر خاص طور پر جنوبی پنجاب میں قائم وفاقی اور صوبائی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ ڈھٹائی پر قائم رہتے ہوئے نہ تو معلومات پبلک کرتی ہیں اور تفصیلات کی عدم دستیابی پر تفصیلات مانگنے پر آئیں بائیں شائیں سے کام لیتی ہیں۔ روزنامہ قوم بھی اس بابت متعدد بار توجہ دلا چکی ہے مگر صوبائی اور وفاقی وزارت تعلیم، وفاقی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور دوسری وزارتوں کے کان پر بھی جوں تک نہ رینگتی ہے۔ اور آخر کار فافن جیسے ادارے نے بھی وزارتوں، خود مختار اداروں اور یونیورسٹیوں کا معلومات چھپائے جانے اور پبلک نہ کرنے کے حوالے سے بھانڈا پھوڑ دیا۔ جس میں جنوبی پنجاب کی تمام تر یونیورسٹیاں پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 پر عمل کرنے میں ناکام رہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں