ملتان (کرائم سیل) سی سی ڈی ملتان نے پولیس ریکارڈ کے مطابق لاہور خانیوال اور ملتان میں 16 مقدمات کے نامزد ملزم، 11 مقدمات میں پولیس کے سہولت کار بطور گواہ اور 9 مقدمات میں پولیس ریکارڈ کے مطابق مدعی مقدمہ عاشق حسین ولد محمد صدیق قوم ارائیں، آئی ڈی کارڈ نمبر 3610306573461 ساکن چک نمبر 9 وی تحصیل و ضلع خانیوال کو مدعی بنا کر مقامی صحافی اور کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر شعیب افتخار کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کر لیا۔ سی سی ڈی کے مطابق شعیب افتخار نے مبینہ طور پر بھتہ خوری کے ذریعے پولیس کا نام لے کر بعض شہریوں کو بلیک میل کیا اور حیران کن امر یہ ہے کہ وقت وقوعہ اڑھائی ماہ پرانا ہے تاہم اس اڑھائی ماہ پرانے وقوعہ پر کارروائی اچانک اس وقت شروع ہوئی جب شعیب افتخار نے دو دن قبل سی سی ڈی کے بعض معاملات پر ایک کرائم ڈائری لکھ کر اپنے اخبار (قوم نہیں) میں شائع کروائی۔ سی سی ڈی نے ڈائری کے لکھے جانے کا بدلہ لینے کے لیے شعیب افتخار کی بعد از گرفتاری جو سرکاری طور پر تصویر جاری کی ہے اس میں شعیب افتخار کی مونچھیں، بھوئیں اور سر کے بال مونڈ کر انگریز کے دور غلامی کی یاد تازہ کر دی کیونکہ انگریزوں کو جس مسلمان کی توہین کرنا ہوتی تھی۔ اس کے سب سے پہلے سر کے بال، بھنویں اور مونچھیں منڈوا دیا کرتے تھے اور پولیس کی طرف سے اپنے اختیارات سے تجاوز کی یہ انتہائی نامناسب، غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکت ہے کہ ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات میں کسی بھی طور پر مونچھیں مونڈنے یا سر بال کاٹنے کی سزا شامل نہیں ہے اور ویسے بھی سزا اور جزا عدالت کا کام ہے ایسا اقدام پولیس نہیں کر سکتی۔ سی سی ڈی کے اس عمل نے مقدمے اور تفتیش کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں اور اس شک کو یقین میں بدل دیا ہے کہ پولیس نے یہ کارروائی محض کرائم ڈائری کے شائع ہونے کے بعد اسے ذاتی انا کا مسئلہ بنایا اور پنجاب کے ایک پولیس اسٹیٹ ہونے کے عمومی تاثر پر ایک مرتبہ پھر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ روزنامہ قوم نے خانیوال کے نمائندگان سے جو معلومات لی ہے ان کے مطابق عاشق حسین ولد محمد صدیق قوم ارائیں بدنام زمانہ پولیس ٹاؤٹ ہے اور پولیس کا اتنا قابل اعتماد سہولت کار ہے کہ پولیس اس کا نام کسی بھی ایف آئی آر میں ڈالنے کے بعد اسے مطلع کرتی ہے کہ ہم نے فلاں ایف آئی آر میں تمہیں مدعی بنا دیا ہے اور وہ ہر طرح کے جھوٹ کے لئے دستیاب ہوتا ہے۔ سی سی ڈی ملتان کے مطابقشعیب افتخار نامی صحافی سے بعد از گرفتاری دریافت پر معلوم ہوا کہ اس نے قبل ازیں تھانہ چہلیک ملتان میں سال 2020میں ایک شہری کو اپنے دفتر لے جا کر چائے میں نشہ آور شہ ملاکر بے ہوش کردیا اور اس کی نازیبا ویڈیو بنا لی،ملزم نے بلیک میل کرتے ہوئے اس سے طلائی چین، موبائل فون چھین لیا اور مزیدرقم 2لاکھ روپے کا تقاضہ کیا اوررقم نہ دینے کی صورت میں اس کی نازیبا ویڈیو اپلوڈ کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا ۔شعیب افتخار اور اس کے متذکرہ بالا ہمراہی ساتھی اپنے آپ کو صحافت کے شعبہ سے منسلک کرکے عوام الناس کو بلیک میل کرتے تھے اور مختلف محکمہ جات کے افسران کے ساتھ فوٹو سیشن کروا کر ان سے اپنا تعلق ظاہر کرتے اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کو یقینی بناتے رہے۔ دوران انٹیروگیشن شعیب افتخار نامی نام نہاد صحافی نے انکشاف کرتے ہوئے بتلایا کہ وہ سی سی ڈی افسران کے ساتھ اپنا تعلق ظاہر کرکے عوام الناس اور کریمنلز کے ساتھ رابطہ کرکے ان کو بھی بلیک میل کرتا رہا اور ان سے رقم وصول کرتا رہا ۔ ملزم مذکور ماضی میں متعدد بار کئی لوگوں کی نازیبا ویڈیوز بنوا کر ان کو بلیک میل کرتارہا اور ان سے رقم بٹورتارہا۔ صحافت ایک نیک اور مقدس پیشہ ہے جس کا شعیب افتخار جیسے صحافی غلط استعمال کرکے صحافت کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ملتان ریجن میں موجود صحافی ہمیشہ سے بطور عبادت ،صحافت کامثبت چہرہ پیش کرتے آئے ہیں جن کو سی سی ڈی اور دیگر محکمہ جات کی طرف سے خراج عقیدت بھی پیش کیا جاتا ہے۔دوسری جانبملتان یونین آف جرنلسٹس (ایم یو جے) نے مقامی صحافی شعیب افتخار کی کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) ملتان کے ہاتھوں غیر قانونی گرفتاری، شدید جسمانی تشدد اور جھوٹے مقدمے کے اندراج کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ایم یو جے کے صدر ملک شہادت حسین اور جنرل سیکرٹری مظہر خان سمیت دیگر عہدیداروں نے کہا ہے کہ اگر شعیب افتخار کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا، جھوٹا مقدمہ واپس نہ لیا گیا اور تشدد و غیر قانونی مقدمہ کے ذمہ دار افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو صحافی برادری بھرپور احتجاج پر مجبور ہوگی۔








