ملتان(قوم میڈیکل انفارمیشن سیل)ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان اور پاکستانی ادویہ ساز کمپنیوں کی ملی بھگت سے ملٹی نیشنل کمپنیاں ادویات کی مناسب قیمت نہ ملنے اور سرکاری اداروں کے روایتی عدم تعاون کی وجہ سے ملک چھوڑ کر واپس جا رہی ہیں جس کی وجہ سے نیشنل کمپنیاں کھل کر من مانیاں کر رہی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان سے درجن سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا بزنس سمیٹ چکی ہیں جبکہ’’ ایبٹ‘‘ اور ’’جی ایس کے ‘‘سمیت بہت ہی کم کمپنیاں اپنی پراڈکٹس پاکستان میں تیار اور فروخت کر رہی ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے عدم تعاون کی وجہ سے حال ہی میں کراچی کی ایک پارٹی کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی جو کہ ریسرچ پراڈکٹ تیار کرتی تھی، آٹھ نئی ادویات کی رجسٹریشن کا عمل ڈھائی سال تک بغیر وجہ بتائے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی وجہ سے رکا رہا اور اس کمپنی کو مذکورہ ادویات تیار اور فروخت کرنے کی اجازت ہی نہ مل سکی۔ آخر کار پاکستانی سرخ فیتہ جو کہ صرف خدمت کی قینچی سے ہی کٹ سکتا ہے مگر اس طرح کی قینچی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے ان کی ادویات کی رجسٹریشن ریسرچ پراڈکٹ ہونے کے باوجود رکی رہتی ہے۔ اس صورتحال سے تنگ آکر مذکورہ ملٹی نیشنل کمپنی کہ جس کی8 ادویات ڈھائی سال گزرنے کے باوجود ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے منظوری حاصل نہ کر سکی ہیں، نے اپنی فیکٹری کراچی کے ایک میمن برادری کے تاجر کو فروخت کر کے پاکستان سے اپنا کاروبار ختم کر لیا تو مذکورہ نئے مالک کووہی ادویات جو ڈھائی سال سے منظوری کے مراحل میں رکی پڑی تھیں ،کے اجازت نامے ان کے کراچی پہنچنے سے قبل ان کے دفتر وصول ہو چکے تھے ۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ریسرچ پراڈکٹس کو وہ قیمتیں بھی نہیں دیتی جو انہی فارمولے کے تحت مقامی کمپنیاں تیار کر کے وصول کر رہی ہیں اور ان کی تفصیلات بتدریج قارئین کو فراہم کی جاتی رہیں گی۔








