ملتان (سٹاف رپورٹر) بد فعلی کے الزام میں ایمرسن یونیورسٹی سے استعفیٰ دینے والے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان گجر نے سوشل میڈیا پر ایک تازہ ترین باریش تصویر شیئر کر کے قانون اور سرکاری اداروں کو جہاں چنوتی دی ہے وہاں ایک مرتبہ پھر اس تاثر کی تصدیق کر دی ہے کہ اگر پاکستان میں آپ کے پاس پیسہ ، اختیار اور سہولت کاروں کا حصار ہے تو پھر آپ کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا اور آپ کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ سنگین قسم کے بد فعلی جیسے اخلاقی جرم کی ویڈیو منظر عام پر آنے، عدالتی کارروائی شروع ہونے اور ملزم کا پولیس کے زیر تفتیش ہونے کے باوجود کھلے عام پاکستان سے باہر چلے جانا سرکاری اداروں کی گرفت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ جہاں ہزاروں معمولی الزامات یا معمولی جرائم میں ملوث افراد ایئر پورٹ سے واپس بھیج دیئے جاتے ہیں وہاں سنگین نوعیت کا اخلاقی مجرم کتنی آسانی سے سسٹم کی رکاوٹوں کو بائی پاس کرتا ہوا ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد رمضان کی سعودی عرب موجودگی ان کے اس دعوے کی تصدیق کرتی ہے جو اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر وہ کیا کرتے تھے کہ ان کے تعلقات بہت وسیع ہیں اور ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ گزشتہ 55 دن سے ان کا دعویٰ درست ثابت ہو رہا ہے کہ قائم مقام چیف سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ اور محکمہ تعلیم سے متعلقہ 2 محکموں کے سربراہان وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایات پر خصوصی طور پر تحقیقات کے لیے ملتان آئے اور 55 روز گزرنے کے باوجود بھی نتیجہ صفر رہے جبکہ یہ اعلیٰ ترین افسران ڈاکٹر رمضان اور متاثرہ فریق محمد اعجاز سے ڈھائی گھنٹے پر محیط انکوائری کے بعد محمد اعجاز کو تسلی دےکرگئےکہ سخت ایکشن ہو گا اور پھر 55 روز میں کوئی رپورٹ ہی وزیر اعلیٰ کو پیش نہ کی جا سکی تو پھر یہ ڈاکٹر رمضان کا یہ دعویٰ درست ہے کہ ان کے سہولت کار زیادہ با اثر ہیں۔








