ملتان(سپیشل رپورٹر)تعمیر نو نامی اکیڈمی اور ڈگری کالج کی آڑ میںقوم و ملت کی معصوم طالبات کو بے آبرو کرنے والا گھناؤنے کردار کے حامل پروفیسر عطا محمد کھوسہ کی معصوم طالبات کے ساتھ برہنہ ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد ڈیرہ غازی خان کے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران نے انہیں بچانےکیلئے سر جوڑ بیٹھے ہیں اور انکوائری کے لیے خصوصی طور پر تونسہ آنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے عطا محمد کھوسہ بارے تو کچھ نہ کہا البتہ سوشل میڈیا پر ویڈیو سیکنڈل کو ہائی لائٹ کرنے والوں پہ اچھی خاصی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ میڈیا پر ابہام پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ ہمیں حقائق تک پہنچنے کے لیے سات دن لگ جائیں گے۔ گزشتہ روز کی انکوائری میں صرف من پسند اور مخصوص طالب علموں کو بلایا گیا جبکہ باقی سٹوڈنٹس کو ساڑھےبارہ بجے کے بعد اطلاع دی گئی جبکہ انکوائری ٹائم ایک بجے تک تھا۔ انکوائری ٹیم کی عمومی رویے سے یہ میرٹ پہ نہیں بلکہ فرضی کارروائی ڈالی گئی تھی محض عطا محمد کھوسہ کو بچانے کیلئےڈگری کالج کی انتظامیہ نے آنے والے طالب علموں پہ کڑی نظر رکھی صرف مخصوص سٹوڈنٹس ہی انکوائری میں لائے گئے۔ محکمہ تعلیم کی طرف سے جو انکوائری کمیشن قائم کیا گیا ہے اس میں پروفیسر سجاد حسین کی زیر سرپرستی ڈاکٹر فرخ فہیم ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز ڈیرہ غازی خان، ڈاکٹر رابعہ صدیقی ایسوسی ایٹ پروفیسر گریجویٹ کالج ڈیرہ غازی خان شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ پروفیسر عطا محمد کھوسہ نے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے مارکیٹ میں پیسے جھونک دیئے ہیں اور باقاعدگی سے لوگوں کی حمایت و ہمدردیاں خریدی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف اس بے شرمی کی انتہا تک جانے والے پروفیسر عطا محمد کھوسہ کی طالبات کے ساتھ وائرل ہونے والی فحش ویڈیوز پر تونسہ کے طلبا و طالبات کے والدین میں شدید پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے اور تونسہ جیسے پسماندہ علاقے میں جہاں ویسے ہی لوگ بچیوں کو پڑھانا معیوب سمجھتے تھےاس قسم کی غلاظت کا سامنے آنا اس منفی سوچ کو تیزی سے تقویت دے رہا ہے کہ بچیوں پر تعلیم کے دروازے دوبارہ سے بند کیے جائیں۔ بتایا گیا ہے ویڈیوز فرانزک کے لیے بھیج دی گئی ہیں تاہم جن شہریوں نے اپنے ذرائع سے ان ویڈیو کی حقیقی ہونے کے حوالے سے ماہرین سے جو جانچ پڑتال کروائی ہے، اس کا ریکارڈ اپنے پاس محفوظ رکھ لیا ہے تاکہ محکمہ تعلیم اور دیگر تفتیشی ادارے ڈنڈی نہ مار سکیں۔ اس ویڈیو سکینڈل سے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں خوف و ہراس اور عدم تحفظ کی فضا ہے اور کچہریوں تعلیم کے دفاتر سمیت ہر محکمے میں یہی موضوع زیر بحث ہے۔المیہ یہ ہے کہ تونسہ ویڈیو سیکنڈل کےلیے بنایا گیا تحقیقاتی کمیشن تین پروفیسرز پر مشتمل تھا۔ ان پروفیسرز نے تونسہ کے پروفیسرز کے خلاف انکوائری کرنا تھی۔عجیب مذاق ہے عوام کے ساتھ اور سٹوڈنٹس کے ساتھ محکمہ تعلیم نے عوام کو بےوقوف سمجھ کر کھوسہ کو بچانے کی ٹھان لی ہے اگر محکمہ تعلیم کھوسہ کو بچانے میں کامیاب ہوا تو یہ کیس عدالت میں چیلنج کیا جائے گا ۔تمام ذمہ داران خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے اپیل ہے کہ اس گھناونے سیکنڈل کی صاف شفاف تحقیقات کی جائیں جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی سٹوڈنٹ ان بھیڑیوں کی بھینٹ نہ چڑھے۔
