آج کی تاریخ

پنجاب میں سموگ، لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں دوسرے نمبر پر، ملتان بھی پیچھے پیچھے-پنجاب میں سموگ، لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں دوسرے نمبر پر، ملتان بھی پیچھے پیچھے-پولیس افسر کے حکم پر فرضی مقابلہ،انجام 4 تھانیداروں کو سزائے موت ،کسی نے مدد نہ کی ، ڈھائی کروڑ خون بہا پر سزائے موت ٹلی۔ مار دو کا حکم دینے والا سابق ایس ایس پی خاموشی سے ٹرانسفر کرا گیا۔-پولیس افسر کے حکم پر فرضی مقابلہ،انجام 4 تھانیداروں کو سزائے موت ،کسی نے مدد نہ کی ، ڈھائی کروڑ خون بہا پر سزائے موت ٹلی۔ مار دو کا حکم دینے والا سابق ایس ایس پی خاموشی سے ٹرانسفر کرا گیا۔-بہاولپور: زیادتی، نکاح کیس، "قوم" بنا مظلوم کی آواز، ایس ایچ او فارغ، تفتیشی جبری ریٹائر-بہاولپور: زیادتی، نکاح کیس، "قوم" بنا مظلوم کی آواز، ایس ایچ او فارغ، تفتیشی جبری ریٹائر-وزیراعظم کا آذربائیجان کے یومِ فتح پر خطاب: تینوں برادر ممالک کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں-وزیراعظم کا آذربائیجان کے یومِ فتح پر خطاب: تینوں برادر ممالک کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں-اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے-اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے

تازہ ترین

بی زیڈ یو میں جعلی رجسٹریشن، ڈگریوں کا شرمناک دھندہ تعلیمی ادارہ جعل سازوں کا گڑھ

ملتان(سہیل چوہدری سے) بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ایک بار پھر جعلی رجسٹریشن اور ڈگریوں کے اجرا کے سنگین الزامات کی زد میں آ گیا ہے۔ ایل ایل بی پروگرام میں جعلی داخلوں کے سکینڈل کے بعد اب بی اے/بی ایس سی امتحانات میں بھی جعلی رجسٹریشن نمبروں کے ذریعے ڈگریاں جاری کرنے کا انکشاف ہوا ہے، جس نے یونیورسٹی کی انتظامیہ کی شفافیت اور دیانتداری پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ذرائع کے مطابق، یونیورسٹی نے طالبہ صبا منیر کو رجسٹریشن نمبر 2006-gwk-621 الاٹ کیا تھا۔ صبا منیر نے اس رجسٹریشن نمبر کے تحت ریگولر طالبہ کی حیثیت سے سالانہ امتحانات 2010 میں امتحان دیا اور 365 نمبروں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ تاہم حیران کن طور پر اسی رجسٹریشن نمبر کے تحت 2015 میں ایک اور امیدوار عائشہ گلزار دختر قاری گلزار حسین شاہ، کو رول نمبر 16161 جاری کیا گیا۔ عائشہ گلزار نے اس رول نمبر کے تحت امتحان دیا اور 515 نمبروں کے ساتھ کامیاب قرار پائیں۔یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب یونیورسٹی کے رجسٹریشن اور امتحانی نظام میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات شروع ہوئیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ہی رجسٹریشن نمبر کو دو مختلف امیدواروں کے لیے استعمال کرنا نہ صرف انتظامی ناکامی بلکہ ممکنہ طور پر ایک منظم دھوکہ دہی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے قبل بھی بی زیڈ یو میں بی اے/بی ایس سی امتحانات میں کرپشن اور جعلی داخلوں کے سکینڈلز رپورٹ ہو چکے ہیں، جن کے نتیجے میں متعدد ملازمین کو جبری ریٹائرمنٹ اور برخاستگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ “یہ واقعات یونیورسٹی کی ساکھ کو داغدار کر رہے ہیں اور مستحق طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ماضی میں اس طرح کے الزامات کے بعد یونیورسٹی نے انکوائری کمیٹیاں تشکیل دی تھیں، جن کی رپورٹس پر عمل درآمد کے حوالے سے سوالات اٹھتے رہے ہیں۔یہ سکینڈل بی زیڈ یو کی ساکھ کے لیے ایک اور دھچکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو طلبہ کا ادارے پر اعتماد مزید کم ہو سکتا ہے۔

ملتان:ایک ہی رجسٹریشن نمبر سے دو امیدواروں کوجاری کی جانے والی ڈگریاں

وائس چانسلر بی زیڈ یو، عارضی رجسٹرار کی جعلسازی، نمائندہ ایچ ایس سی نے سنڈیکیٹ کی دھجیاں اڑا دیں

ملتان (سٹاف رپورٹر) بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ناتجربہ کار وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری اور ہیر پھیر کی ماہر انتظامیہ کے نمائندے عارضی و قائم مقام رجسٹرار اعجاز احمد کی جانب سے تیار کیے گئے سنڈیکیٹ اجلاسوں کے ڈرافٹ منٹس میں موجود کوتاہیوں پر ایچ ای سی کے نامزد نمائندے کے تفصیلی مشاہدات سامنے آئے ہیں جن میں مختلف بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تفصیل کے مطابق ایچ ای سی نمائندے شاہزیب عباسی کے نوٹس کئے گئے نقاط میں کچھ سنڈیکیٹ اراکین کے اختلافی نوٹس، جو اجلاس کے خاتمے کے بعد ڈرافٹ منٹس شیئر کئے گئے اور انہیں جعلسازی کے زریعے ڈرافٹ کے منٹس کا حصہ بنا دیا گیا۔ ان کے مطابق ایسے نوٹس صرف اور صرف اجلاس کے دوران یا دوسری صورت میں ڈرافٹ منٹس موصول ہونے کے بعد علیہدہ سے دیے جا سکتے ہیں اور پھر انہیں اگلے اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے جب پچھلے اجلاس کے منٹس کی منظوری دی جا چکی ہوتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی نے اپنے سنڈیکیٹ اجلاسوں میں غیرمعمولی طور پر بھاری ایجنڈا پیش کرنے کو معمول بنا رکھا ہے۔ سال 2025 میں منعقدہ اجلاسوں میں بالترتیب 57، 90 اور 60 آئٹمز شامل تھے لیکن ان میں سے ائٹمز کی بڑی تعداد مؤخر کر دی گئی، ان موخع کئے گئے آئٹمز کی شرح 26 فیصد، 35 فیصد اور 66 فیصد رہی۔ نمائندے کے مطابق سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ مؤخر کیے گئے آئٹمز بعد میں دوبارہ پیش ہی نہیں کیے جاتے اور غائب کر دیے جاتے ہیں، جس سے ورکنگ پیپرز پر کی جانے والی محنت ضائع ہوتی ہے اور اہم معاملات اراکین کی اجتماعی سوچ کے فیصلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس طرح ایجنڈا آئٹم نمبر 5 میں وائس چانسلر کے اختیارات بارے نمائندے نے کہا کہ وائس چانسلر نے ایمرجنسی اختیارات استعمال کرتے ہوئے HEI ایکٹ کی خلاف ورزی کی۔ قانون کے مطابق ان اختیارات کو 45 دن کے اندر سنڈیکیٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے لیکن اس کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اس معاملے کو اجلاس میں زیر بحث بھی لایا گیا جسے ریکارڈ میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اسی طرح ایجنڈا آئٹم نمبر 8 میں فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کے منٹس کے بارے میں ایچ ای سی نمائندے کا کہنا تھا کہ 19 جون 2025 کو فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کے اجلاس کے منٹس سنڈیکیٹ اجلاس میں پیش کیے گئے مگر اجلاس کے بعد ان میں ترمیم کرکے انہیں سنڈیکیٹ کے فیصلوں سے غلط طور پر منسلک کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلوں کی زبان بدل دی جاتی ہے جبکہ عام طور پر یہ ریکارڈ کیا جاتا ہے کہ سنڈیکیٹ نے سفارشات پر غور کے بعد منظوری دی اور درج ذیل ترامیم کیں”۔ نمائندے نے کئی اہم انحرافات کی نشاندہی بھی کی، جن میں۔۔۔۔ * ایجنڈا 9 پر فیصلہ کمیٹی کی سفارش کے برخلاف تھا۔* ایجنڈا 10 میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کی عمارت کی توسیع کے لیے کمیٹی نے 2.8 ملین روپے کی سفارش کی تھی لیکن سنڈیکیٹ نے اس میں 0.8 ملین کا اضافہ کرکے 3.6 ملین کی منظوری بغیر کسی وجہ کے دے دی گئی۔* ایجنڈا 14 میں شرح وسائل پر کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔* ایجنڈا 20 اسٹرٹیجک پلاننگ کمیٹی کو بھیجا گیا تھا مگر اسے براہِ راست سنڈیکیٹ اجلاس میں رکھا گیا۔* دیگر آئٹمز (صفحہ 55، 56 اور 57 کے حوالے سے) میں بھی غلط ریکارڈنگ، غیر ضروری تبدیلیاں اور غیر معیاری الفاظ درج کیے گئے۔مزید یہ کہ اجلاس کے منٹس پر دستخط بھی مختلف تاریخوں کے ساتھ کیے گئے ہیں، جو معمول کے برخلاف ہے۔ نمائندے نے کہا کہ ترامیم یا تبدیلیوں کے اسباب لازمی طور پر منٹس میں ریکارڈ کیے جانے چاہئیں۔ اسی طرح ایجنڈا آئٹم نمبر 17، غیر قانونی سلیکشن بورڈ کے انعقاد میں ایچ ای سی خطوط کی شمولیت کے بارے میں ایچ ای سی نمائندے نے لکھا کہ صفحہ 18 پر فیصلہ غلط جگہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور اسے آخر میں درج ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، ایچ ای سی کے خطوط مورخہ 1 مارچ 2024، 21 مئی 2024 اور 6 مارچ 2025 کو بھی شامل نہیں کیا گیا جو اختلافی نوٹس کے طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دلیل دینا کہ اس دوران یونیورسٹی میں کوئی باقاعدہ وائس چانسلر نہیں تھا، کدی طور بھی درست نہیں کیونکہ سیلیکشن بورڈ کی کارروائیاں پرانے اشتہارات پر مبنی تھیں۔ لہٰذا ایچ ای سی کا خط مورخہ 6 مارچ 2025 بھی منٹس کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح ایجنڈا آئٹم نمبر 18 میں سرے سے فیصلہ ہی غائب ہے۔ نمائندے نے کہا کہ صفحہ 24 پر ایجنڈا آئٹم نمبر 18 سے متعلق کوئی فیصلہ درج ہی نہیں کیا گیا، حالانکہ فیصلہ آخر میں لازمی طور پر ریکارڈ ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس آئٹم میں ایچ ای سی، ایچ ای ڈی اور سیکریٹری فنانس کے نمائندوں کے اختلافی نوٹس کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح نمائندے کے مطابق موجودہ کام کے آئٹم نمبر 2 کو بھی پیش کیا گیا تھا لیکن منٹس میں اسے غلط طور پر ایجنڈا آئٹم نمبر 8 کے تحت درج کیا گیا ہے، حالانکہ اسے علیحدہ طور پر ریکارڈ ہونا چاہیے تھا۔ چنانچہ ایچ ای سی نمائندہ جو کہ کوالٹی کے لحاظ سے مخصوص اہمیت کا حامل ہے کے مطابق موجودہ طریقہ کار میں اجلاس کے منٹس ریکارڈ کرنے میں بے شمار نقائص ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ منٹس کو شفاف اور درست انداز میں ریکارڈ کرنے کے لیے فوری نظر ثانی ناگزیر ہے۔

شاہزیب عباسی، رجسٹرار اعجاز احمد اور پروفیسر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری

شیئر کریں

:مزید خبریں