بہاولپور (کرائم سیل) ڈی پی او بہاولپور کے قابل اعتماد اور طاقتور تشددپسند ذہنیت کے حامل ایس ایچ او سجاد سندھو کو بے قصور اقرا شفیق اسکی والدہ چچی اور پھپھو سمیت ناحق تشدد کرتے ہوئے گرفتار کرنے اور 26 روز تک جیل میں رکھنے کی کارروائی انتقامی ثابت ہونے کے باوجود ڈی پی او بہاولپورکے ایس ایچ اور ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر طالبہ اقراشفیق نے رہائی کے بعد گزشتہ روز میڈیا کو اپنے تفصیلی انٹرویو میں ایک مرتبہ پھر ایس ایچ او سجاد احمد سندھو پر گرفتاری کے وقت تشدد اور بالوں سے گھسیٹنے کے الزامات عائد کیے ہیں مگر ابھی تک پولیس کے اعلیٰ افسران اور وزیراعلیٰ پنجاب تک شاید اس بے گناہ خاندان کی آواز نہیں پہنچی جسے تاحال انصاف نہیں ملا۔یاد رہے کہ مورخہ 10 اگست کو پولیس نے وہاں کے بااثر اور مالدار قبضہ مافیا کے سرغنہ خواجہ مرید حسین اور خواجہ نثار صدیقی کے اشارے پر پورے سرکل کی نفری کے ساتھ اقراء شفیق کے گھر چھاپہ مارا۔ اقراء شفیق کا کہنا ہے کہ وہ چھت پر سوئی ہوئی تھیں، انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اندر بٹھایا گیا اور ایس ایچ او نے ڈنڈوں سے تشدد کیا۔ اس چھاپے کے وقت لیڈیز پولیس موجود نہیں تھی اور ایس ایچ او مسلسل کہہ رہا تھا کہ “تمہیں اب اپنی باقی پڑھائی جیل میں ہی کرنی پڑے گی، تمہیں سالہا سال تک جیل میں رکھوں گا۔”یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مورخہ 27 اگست کو آر پی او کی کھلی کچہری کے دوران ڈی پی او بہاولپور نے متاثرہ خاندان کو دہشت گرد قرار دیا اور اپنے قابلِ اعتماد ایس ایچ او کی مکمل حمایت بھی کی تھی۔ تاہم ڈی ایس پی یزمان کی تفتیش میں دہشت گردی کی دفعات حذف کر دی گئیں اور اقرا اور اس کے والد اس مقدمے میں بے گناہ قرار پائے۔مگر اب تک ڈی پی او بہاولپور نے اس صورتِ حال پر کسی موثر کارروائی کا نوٹس نہیں لیا اور مبینہ طور پر ایس پی انویسٹیگیشن اپنے قریبی ساتھیوں کو بچانے کے لیے اس کیس کے دوران سرگرم رہے۔ جماعت اسلامی عوامی و سیاسی حلقوں اور بعض حقائق اور اداروں کی مداخلت کے بعد پولیس بعض حد تک پیچھے ہٹی مگر اعلیٰ افسران کے طویل مؤقف کے باوجود مظلوم خاندان کو ابھی تک انصاف فراہم نہیں کیا گیا۔اقرا شفیق نے وزیراعلیٰ پنجاب سے فوری اور شفاف ایکشن کا مطالبہ کر دیا ہے۔








