آج کی تاریخ

اے ڈی عامر کا ایک اور فراڈ بے نقاب، پاکپتن کے جعلی لا کالج کو 300 سیٹیں فروخت

ملتان(عوامی رپورٹر)ہزاروں بچوں کا مستقبل تاریک کرنے والےزکریا یونیورسٹی کے سابق ڈپٹی رجسٹرار اے ڈی عامر کا مزید فراڈ بے نقاب،جعلی رجسٹریشن، بھاری رشوت اور طلباکے مستقبل سے کھلواڑ کے مزید حقائق سامنے آگئے۔ روزنامہ قوم کو ملنے والی معلومات کے مطابق بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بدعنوانی اور ذاتی مفاد کے تحت قانون کی تعلیم کو داؤ پر لگانے کا سنگین واقعہ منظر عام پر آیا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق سابق ڈپٹی رجسٹرار رجسٹریشن اے ڈی عامر نے 29 دسمبر 2018 کو ایک سرکاری مراسلے کے ذریعے پرنسپل پاکستان سکول آف لاپاکپتن کو مطلع کیا کہ ان کا ادارہ ایل ایل بی تین سالہ پروگرام کے لیے اہل نہیں، لہٰذا رجسٹریشن کی اجازت نہیں دی جاتی تاہم اس کے باوجودبھاری رشوت کے عوض اسی کالج کو 300 سیٹوں کی رجسٹریشن جاری کی گئی، جبکہ مذکورہ جعلی لا کالج کا زکریا یونیورسٹی سے کوئی باقاعدہ الحاق سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ اس سنگین خلاف ورزی میں نہ صرف اے ڈی عامر بلکہ لا برانچ ایمپلائز یونین کی مجلس عاملہ کے رکن، رانا مدثر بھی ملوث پائے گئے جنہوں نے اس غیر قانونی عمل میں فعال کردار ادا کیا۔ ذرائع کے مطابق جب امتحانی نتائج جاری ہوئے تو اس وقت یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ پاکستان سکول آف لاپاکپتن کا زکریا یونیورسٹی سے نہ کوئی الحاق تھا اور نہ ہی اس کالج نے کبھی الحاق کے لیے باضابطہ درخواست دی۔ یہ سب کچھ رجسٹرار آفس اور کنٹرولر امتحانات برانچ کی ملی بھگت سے ممکن ہوا، جنہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی آڑ میں غیر منظور شدہ کالج کو رجسٹریشن جاری کر دی۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر جب پرانے کالجز کے لیے رجسٹریشن کھولی گئی، تو اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان سکول آف لا پاکپتن کو 300 نشستیں الاٹ کی گئیںحالانکہ کالج الحاق شدہ نہیں تھا۔ یہ نشستیں بعد ازاں ایک اور کالج کو فروخت کی گئیںجبکہ کاغذات میں پاکستان سکول آف لا کا نام استعمال کیا گیا۔ یہ پورا معاملہ اس وقت مزید سنگین صورت اختیار کر گیا جب معلوم ہوا کہ رجسٹریشن اور الحاق کمیٹی کی منظوری کے بغیر بھی متعدد کالجز کو کروڑوں روپے کی رشوت کے عوض سیٹیں فروخت کی گئیںجس کے نتیجے میں طلبا و طالبات کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اے ڈی عامر نے جنوبی پنجاب کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں بیٹھ کر بوگس رجسٹریشنز کے ذریعے نہ صرف کروڑوں روپے کمائےبلکہ اپنے ماتحت عملے اور چند پرائیویٹ افراد کو بھی اس غیر قانونی دھندے میں شریک کیا۔ یہ افراد، جو کہ اے ڈی عامر کے ٹاوٹ کے طور پر کام کر رہے تھے، طلباء کو جعلی اندراجات کے ذریعے وکالت کے میدان میں لانے میں معاونت کرتے رہے۔ یوں نہ صرف ملک کے قانونی نظام کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ کئی ناتجربہ کار اور غیر اہل افراد کو وکیل بنانے کا راستہ بھی ہموار کیا گیا۔ اے ڈی عامر، جو کہ رجسٹریشن کے شعبے میں بطور ڈپٹی رجسٹرار تعینات رہا، اس نے ذاتی مفادات کی خاطر قانون کی تعلیم کے اس مقدس شعبے کو کرپشن کی آماجگاہ بنا دیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ و دیگر حکام اس افسوسناک واقعہ اعلیٰ سطحی انکوائری راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور اس ملوث عناصر کو قانون کے شکنجے میں لانے کی بجائے سہولت کاری کر رہے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں