چند سال پرانی بات ہے ایک وفاقی وزیر سے اکثر و بیشتر گپ شپ رہا کرتی تھی۔ خاصے کھلے ڈلے آدمی تھے اور لگی لپٹی رکھے بغیر بات کر جاتے تھے۔ ان کی وزارت میں افسران کی اکھاڑ پچھاڑ لگی رہتی تھی۔ ایک دن میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ افسران کو ٹکنے کیوں نہیں دیتے تو انہوں نے برجستہ جواب دیا’’سانوں کوئی ٹکن دیندا اے، جیڑا اسی دوسریاں نوں ٹکن دییے۔ میں اک فنکشن وچ ہار پوا کی تقریر کر ریا سی، مینوں میرے پی ایس او نے کن وچ دسیا، سر جی تقریر مکاؤ، اسمبلیاں ٹٹ گئیاں جے‘‘مذکورہ وزیر ہنستے ہنستے اس ملک کے نظام کی تلخ ترین حقیقت بتا گئے۔
پاکستان میں یہی رائج الوقت سچ ہے اور حقیقت میں یہی فرق ہوتا ہے ایک قائم مقام، عارضی اور مستقل نظام میں۔ پنجاب یونیورسٹی سے میرا رشتہ اس وقت قائم ہوا جب میں نے ایم اے ماس کمیونیکیشن کیلئےپنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں داخلہ لیا اور پھر وہاں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد روزنامہ جنگ اور روزنامہ پاکستان کیلئے ایجوکیشن رپورٹنگ کے دوران بھی یہ رابطہ برقرار رہا جو الحمدللہ آج بھی برقرار ہے۔
ان دنوں الیکٹرانک یا سوشل میڈیا کا تو نام و نشان تک نہ تھا البتہ اخبارات میں پنجاب یونیورسٹی کی خبروں کی بھرمار ہوا کرتی تھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ غریق رحمت کرے میرے استاد محترم ڈاکٹر مسکین علی حجازی مرحوم اور ڈاکٹر رفیق احمد کے بعد تعینات ہونے والے سابق چانسلر ڈاکٹر منیرالدین چغتائی مرحوم کہ جن پاس میری طلبی ہوئی۔ ہوا یوں کہ ڈاکٹر مسکین علی حجازی صاحب کا مجھے فون آیا کہ کل 11 بجے اولڈ کیمپس میں وائس چانسلر صاحب کے دفتر کے باہر پہنچ جاؤ۔ میں وہاں پہنچا تو ڈاکٹر مسکین علی حجازی منتظر تھے، مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ آپ کی ملاقات وائس چانسلر صاحب سے کروانی ہے وہ کچھ چیزیں پوچھنا چاہتے ہیں۔ میں ڈاکٹر مسکین علی حجازی صاحب کے ہمراہ جب وی سی صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو ایک نوجوان اور کم تجربہ رکھنے والے صحافی کو دیکھ کر ڈاکٹر چغتائی معنی خیز انداز میں ڈاکٹر مسکین علی حجازی کی طرف دیکھنے لگے تو حجازی صاحب گویا ہوئے، سر آپ فکر نہ کریں کھل کر بات کریں۔
ڈاکٹر چغتائی صاحب نے مجھ سے ایک ہی سوال کیا کہ لاہور میں دو یونیورسٹیاں ہیں ایک پنجاب یونیورسٹی اور دوسری ا نجینئرنگ یونیورسٹی، جہاں حالات پنجاب یونیورسٹی کی نسبت بہت ہی زیادہ بدتر رہتے ہیں مگر اخبارات میں صرف پنجاب یونیورسٹی کے معاملات کو جس طرح اچھالا جاتا ہے اس طرح انجینئرنگ یونیورسٹی کو بدترین حالات کے باوجود نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا :سر پنجاب یونیورسٹی کے تمام تر انتظامی شعبہ جات اولڈ کیمپس میں ہیں جو کہ شہر کے عین وسط میں مال روڈ پر واقع ہے۔ جس اخبار کا بھی رپورٹر سیکرٹیریٹ، بلدیہ، ضلعی انتظامیہ یا عدالتوں میں جاتا ہے وہ واپسی پر پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے ایک گیٹ سے داخل ہو کر دوسرے سے بھی نکل جائے تو اسے 10 خبریں مل جاتی ہیں جبکہ انجینئرنگ یونیورسٹی کیلئے رپورٹر حضرات کو وقت نکال کر خصوصی طور پر وہاں جانا پڑتا ہے اور اتنا تردد کوئی نہیں کرتا۔ آپ یونیورسٹی کے تمام تر ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹس نیو کیمپس منتقل کر دیں۔ روز مرہ کی خبریں خود بہت حد تک بند ہو جائیں گی۔ ڈاکٹر چغتائی نے اپنی سیٹ سے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور کہنے لگے اب مزید کسی سوال کی مجھے ضرورت باقی نہیں رہی۔
اس دور میں ڈاکٹر رفیق احمد، ڈاکٹر چغتائی حتیٰ کہ ڈاکٹر مجاہد کامران اور ریٹائرڈ جنرل بھی بطور وائس چانسلر تمام تر اختیارات ہونے کے باوجود یونیورسٹی ہاسٹلز میں مقیم غیر طالب علم عناصر کے خلاف اس طرح سے کارروائی نہ کر سکے جو کہ ڈاکٹر محمد علی شاہ نے چند ہی ہفتوں میں کر دکھائی۔ یہ غیر طالب علم عناصر کم از کم پانچ دہائیوں سے پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں کسی نہ کسی طرح قیام پذیر تھے اور بعض تو دس دس سال سے ان ہوسٹلوں کے مکین تھے ۔دوسرے شہروں سے آنے والوں کو شہر کے وسط میں اس قسم کی رہائش اور کھانا مل جائے تو انہیں اور کیا چا ہئے۔ بتایا جاتا ہے کہ 600 سے زائد غیر طالب علم عناصر کو نکالا گیا ہے۔ اپنے صحافتی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے میں جانتا ہوں یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن اور انتہائی جرات مندانہ اقدام ہے جو ڈاکٹر محمد علی شاہ کامیابی سے اٹھا گئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہاسٹل سپرنٹنڈنٹس، وارڈنز اور سالہا سال سے ہاسٹلز کے انتظامی امور پر قابض ان عناصر کا بھی محاسبہ ہوگا؟کیا انہیں بھی بھی تبدیل کیا جا سکے گا جو غیر طالب علم عناصر کے حوالے سے سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش تھے۔ جن ملازمین کی فوج ظفر موج ہر وقت خدمت کیلئے میسر ہو وہ یہ مفت کی عیاشی کیوں کر چھوڑیں گے اور پنجاب یونیورسٹی سمیت تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں یہ بھی منظم اور مضبوط ترین مافیا بن چکے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہےپبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے گرلز ہاسٹلز کی صورتحال بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ اب دیکھتے ہیں ڈاکٹر شاہ اس امتحان پر کیسے پورے اترتے ہیں تاہم غیر طالب علم عناصر کے خلاف کارروائی کے بعد مجھے یقین ہے کہ وہ یہ مرحلہ بھی باآسانی طے کر لیں گے ۔
روزنامہ قوم جس کا میں چیف ایڈیٹر ہوں، پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے معاملات کی کوریج کی حوالے سے ملک بھر میں منفرد پہچان رکھتا ہے اور اس اخبار کا ایجوکیشن ریسرچ سیل انتہائی تجربہ کار تعلیمی ماہرین کی معاونت سے کام کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے پاکستان کے پرنٹ میڈیا میں جس قسم کی تحقیقاتی رپورٹنگ بحوالہ ایجوکیشن روزنامہ قوم کر رہا ہے وہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ میں جنوبی پنجاب کی خصوصی اور ملک بھر کی عمومی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے معاملات کی خبریں اپنے اسی مربوط نیٹ ورک کے ذریعے روزنامہ قوم کے صفحات کی زینت بناتا ہوں اور جو کچھ شائع کرتا ہوں اس سے کہیں زیادہ آگاہی رکھتا ہوں مگر شائع نہیں کر پاتا کہ اخلاقی اور معاشرتی مجبوریاں میرے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
میرے علم میں ہے کہ ایمرسن یونیورسٹی ملتان میں کس قسم کا کھلواڑ ہو رہا ہے، زکریا یونیورسٹی کے معاملات کیا ہیں، اسلامیہ یونیورسٹی میں کیا گل کھلائے جا رہے ہیں، خواتین یونیورسٹی ملتان اور بہاولپور میں کس قسم کی انتظامی بدتری ہے، میاں نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد کامران مضبوط ترین تعلقات کی بنا پر کس طرح میرٹ کو پامال کرکے خود کو مزید مضبوط مگر یونیورسٹی کی جڑیں کھوکھلی اور کمزور کر رہے ہیں، خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان کے معاملات کیسے چل رہے ہیں اور کامسیٹ یونیورسٹی ساہیوال کے حالات کیا ہیں۔ فیصل آباد میں کیا چل رہا ہے کہ ملک بھر میں میرے میڈیا نیٹ ورک سے جڑے دوست آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد علی شاہ کہ جن کی انتظامی صلاحیتوں اور تدریسی تجربے سے میں بخوبی آگاہ ہوں، پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنے سے قبل زکریا یونیورسٹی ملتان کے قائم مقام وائس چانسلر کے طور پر لگ بھگ دو سال تعینات رہے مگر چونکہ قائم مقام اور عارضی وائس چانسلر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں یہی وجہ تھی کہ وہ یہاں ملتان میں اپنی انتظامی، تحقیقی اور تدریسی مہارت و تجربے کے باوجود قانونی رکاوٹوں کا باعث فیصلہ کن کردار اس لیے ادا نہ کر سکے کہ قائم مقام کے اختیارات بہت محدود ہوتے ہیں اور اسے صرف روزمرہ کے امور دیکھنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے جسے عرف عام میں look after کہا جاتا ہے تو ایسا شخص اپنی صلاحیتوں کا کیسے مظاہرہ کر سکتا ہے۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کی خوش قسمتی کہ اسے ایک اچھا منتظم مل گیا اور زکریا یونیورسٹی کی سالہا سال سے جاری بدقسمتی کہ اسے چار سال کیلئے ایک ایسے ’’صاحب‘‘کے حوالے کر دیا گیا جن کا مزاج نہ تدریسی ہے نہ مستحکم اور جو اپنی ذات کے حصار سے باہر ہی نہیں نکل پا رہے۔ کاش ڈاکٹر محمد علی شاہ زکریا یونیورسٹی میں قائم مقام کے بجائے مستقل بنیادوں پر تعینات ہوتے تو آج اس یونیورسٹی میں استحکام ہوتا۔
بس یہی فرق ہے عارضی اور غیر مستقل فیصلوں میں گھرے پاکستان کا عالمی سیاسی وانتظامی تناظر میں، بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان عارضی فیصلوں اور ایڈہاک ازم کے حصار سے باہر ہی نہ نکل سکا اور ہر عارضی نے سارے کے سارے نظاموں کو دانستہ عارضی ہی رکھا۔
