ملتان (سٹاف رپوٹر) تعلیمی ترقی کے حوالے سے حکومت پنجاب کی عمومی ترجیحات اور جنوبی پنجاب پر “خاص توجہ” کی انوکھی مثال کچھ اس طرح سے سامنے آئی ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے لیے دو سال کے دوران مستقل وائس چانسلر ڈھونڈا نہیں جا سکا اور قائم مقام و عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر کامران کی ایک مرتبہ پھر عارضی عہدے کی مدت ختم ہو چکی ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں نہ تو مستقل وائس چانسلر ہے اور نہ ہی مستقل پرو وائس چانسلر جبکہ رجسٹرار ،کنٹرولر اور خزانہ دار سب کے سب عارضی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس اذیت ناک صورتحال کی وجہ سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تباہی کا شکار ہو رہی ہے۔ دن بہ دن طلبا و طالبات کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ یونیورسٹی میں سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے دور میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن کا خمیازہ اس وقت پوری یونیورسٹی مالی طور پر بھگت رہی ہے۔ اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کے بعد اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یونیورسٹی کے پاس پروفیسر حضرات اور دیگر عملے کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں جبکہ اب بینک بھی قرضہ نہیں دے رہے کیونکہ دو ماہ پہلے تک بینک سے قرض لے کر یونیورسٹی ایمپلائیز کو تنخواہ دی گئی تھی اور یونیورسٹی کے جملہ سٹاف کو ماہوار کے بجائے آٹھ دن، دس دن یا 15 دن بعد قسطوں میں تنخواہیں دی جاتی رہی ہیں جبکہ تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات و اخراجات پر بلوں کے علاوہ مکمل پابندی ہے۔ نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر کامران کے پاس اسلامیہ یونیورسٹی کا اضافی چارج تھا جس کی مدت بھی دوسری بار ختم ہو چکی ہے۔ دوسری طرف اسلامیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کی انکوائری ڈمپ کر دی گئی ہیں حتیٰ کہ گورنر پنجاب کو بھیجی جانے والی تحریری شکایات پر بھی کسی طرح کی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔
