ملتان (سٹاف رپورٹر) ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی بنائی گئی 15 ایکریڈیشن کونسلز جن میں انجینئرنگ کونسل، میڈیکل کونسل ،بزنس کونسل، کمپیوٹر کونسل ،ایجوکیشن کونسل، ایگریکلچر کونسل، فارمیسی اور دوسری ایکریڈیشن کونسلز شامل ہیں کے معیار، سٹوڈنٹ ٹیچر شرح اور کلاس روم میں طلبا و طالبات کی تعداد کے حوالے سے متضاد معیارات سامنے آگئے ہیں جس کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بنائی گئی پاکستان انجینئرنگ کونسل کی جانب سے یونیورسٹیوں میں انجینئرنگ کروانے والے اداروں میں کلاس روم میں طلبا و طالبات کی تعداد 40 جبکہ ہر 20 طلبہ پر کم از کم 1 ٹیچر ہونا چاہئے۔ دوسری طرف ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہی جانب سے بنائی گئی نیشنل کمپیوٹر ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل کی جانب سے دی گئی ہدایات کے مطابق کلاس روم میں طلبا و طالبات کی تعداد 50 جبکہ ٹیچر سٹوڈنٹس کی شرح 29 سٹوڈنٹس پر 1 ٹیچر ہونی چاہئے۔ اسی طرح نیشنل بزنس ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل کی جانب سے کلاس روم میں طلبا و طالبات کی تعداد 55 جبکہ ٹیچر سٹوڈنٹ شرح 25 طلبہ پر 1 ٹیچر ہونا چاہئے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بنائی گئی ایکریڈیشن کونسلز کی جانب سے مختلف معیار قائم کرنا اس سسٹم پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اور اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں تقابلی جائزہ لینے کا کوئی نظام موجود نہیں اور یہ ادارہ مسلسل پالیسیاں بنانے کے حوالے سے مسلسل کنفیوژن کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹی مافیا نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مکمل طور پر ہائی جیک کر رکھا ہے اور کمیشن کے فیصلوں پر یہ پرائیویٹ یونیورسٹی مافیا حاوی ہے۔
