ملتان (سٹاف رپورٹر) ایمرسن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر رمضان گجر کے فحش ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے ایس پی گلگشت سیف اللہ گجر کی تفتیش فروشی کھل کر سامنے آ گئی اور اس معاملے میں جن امور کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا وہی کھل کر سامنے آ گئے۔ ڈاکٹر محمد رمضان گجر سابقہ وائس چانسلر ایمرسن یونیورسٹی ملتان کی اپنے ملازم اعجاز حسین کے ساتھ بنائی گئی فحش ویڈیو، جس میں باقاعدہ طور پر ڈاکٹر رمضان کا چہرہ پہچانا جا سکتا ہے اور جس ویڈیو کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دیکھے جانے کے بعد شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جس ویڈیو کو دیکھ کر ڈاکٹر رمضان کے قریبی دوست بھی اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ یہ ڈاکٹر رمضان کے علاوہ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور پھر تھانہ بی زیڈ کی پولیس نے مدعی اعجاز حسین کے ہمراہ اس کے گھر سے وہ جیکٹ بھی برآمد کر لی تھی جس کی اندرونی جیب میں سوراخ کر کے موبائل سیٹ کرنے کے بعد اعجاز حسین نے ڈاکٹر رمضان کی بدفعلی کرتے ہوئے مذکورہ فوٹیج اپنے موبائل سے از خود بنائی تھی اور بعد ازاں گواہان سے اس کا ذکر بھی کیا تھا۔ روزنامہ قوم میں اس کی تفصیلات شائع ہونے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر ایک جے آئی ٹی بنائی گئی جس کی سربراہی اس وقت کے قائم مقام چیف سیکرٹری نے کی کیونکہ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے ہمراہ جاپان کے دورے پر تھے۔ اس اعلیٰ سطحی کمیٹی میں قائم مقام چیف سیکرٹری کے علاوہ ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران موجود تھے جنہوں نے کمشنر ملتان کے کمیٹی روم میں ڈاکٹر رمضان گجر کو بھی بلایا اور مدعی اعجاز حسین کو بھی بلایا پھر اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے کہنے پر ایک ویڈیو ایس پی گلگشت سیف اللہ گجر کے حوالے کی گئی جبکہ سیف اللہ گجر نے بغیر وجہ بتائے اور منع کیے جانے کے باوجود زبردستی اعجاز حسین سے پانچ سادہ کاغذات پر دستخط اور اس کے انگوٹھے لگوا کر اپنے پاس رکھ لیے۔ اعلیٰ سطحی انویسٹی گیشن ٹیم نے اعجاز حسین کو مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی اور کہا تھا کہ ڈاکٹر رمضان کے خلاف سخت کارروائی ہو گی اور آپ کو کسی قسم کے خوف کی ضرورت نہیں، ہم نے آپ کاموقف لے لیا ہے اور اپ کے اس موقف کو وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کر دیں گے مگر تقریبا 55 روز گزرنے کے باوجود اعلیٰ ترین کمیٹی کے ممبران کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ حتیٰ کہ صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کے بھی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہ بھی اس معاملے پر چپ سادھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مدعی اعجاز حسین کی طرف سے ڈیڑھ ماہ قبل پولیس کو درخواست دی گئی اور یہ درخواست تھانہ بی زیڈ جو کہ ایمرسن یونیورسٹی کا متعلقہ تھانہ ہے، میں جمع کروانے کی لگاتار تین دن کوشش کے بعد جب وہ درخواست پر نمبر ہی نہ لگ سکا اور تھانے کے محرر نے درخواست ہی وصول کرنے سے انکار کر دیا جبکہ ایس ایچ او نے واضح طور پر کہہ دیا کہ یہ کیس میری حیثیت سے اوپر کا ہے لہٰذا میرے ہاتھ کھڑے ہیں، تو اعجاز حسین نے عدالت سے رجوع کرکے 22 اے کی ہی رٹ دائر کی اور عدالت حکم پر پرچہ درج کرانے کی کوشش کی جس پر ایس پی گلگشت سیف اللہ گجر نے جو رپورٹ لکھی وہ درج ذیل ہے اور یہ رپورٹ واضح کر رہی ہے کہ پولیس کس طرح کسی بھی کیس کو تباہ و برباد کرتی ہے اور کیسے سنگین ترین نوعیت کے معاملات میں ملوث ملزمان کی سہولت کاری کرتی ہے کیونکہ جس ڈاکٹر رمضان گجر کو دنیا بھر میں پہچان لیا گیا کیونکہ وہ کوئی عام آدمی نہیں بلکہ وائس چانسلر تھے حتیٰ کہ ان کی ویڈیو کو سینکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ و طالبات نے بھی پہچان لیا جو ایمرسن یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا پڑھ کے جا چکے ہیں مگر نہ پہچان سکے تو ایس پی گلگشت سرکل سیف اللہ گجر نہ پہچان سکے۔
منجانب:ایس پی گلگشت ڈویژن ملتان
بنجانب:بعدالت جناب ASJصاحب ملتان
نمبر:827-RSP-GSTمورخہ21.09.25
عنوان:اعجاز حسین بنام ڈاکٹر محمد رمضان وغیرہ
جناب عالی!
رٹ کنندہ نے موقف اختیار کیا کہ سائل گزشتہ دو سال سے ایمرسن یونیورسٹی ملتان میں وائس چانسلر ڈاکٹر محمد رمضان گجر کے پاس باورچی کا کام کرتا ہے ڈاکٹر محمد رمضان گجر الزام عالیہ نمبر4گزشتہ دو سال س من سائل کو خوفزدہ و حراساں کرکے اور نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں دے کر میرے ساتھ غیر فطری فعل کرتا چلا آیا ہے۔الزام علیہ نمبر 4 مجھ س جنسی ادویات بھی منگواتا تھا اور الزام علیہ نمبر4 نےVCہائوس میں سائل کو اتنا خوف زدہ کردیا تھا کہ میں اپنی جان کے خوف سے الزام علیہ نمبر4 کی ہربات ماننے کو تیار رہتا تھا کیونکہ سائل کی چار عدد بیٹیاں ہیں اور بیٹا کوئی نہیں ہے میری بچیاں ملتان میں زیر تعلیم ہیں اس دوران الزام علیہ نمبر 4 نے میری بیٹیوں پر گندی نظر ڈالنا شروع کی تو میں نے اس بات کا ذکر گواہان نعیم الحسن اور محمود نواز اور اپنی زوجہ شازیہ پروین سے کیا اور تمام تر حالات سے آگاہ کیا اور من سائل نے الزام علیہ نمبر 4 کی اپنے ساتھ بدفعلی کی ویڈیو جو بنائی ہوئی ہے جس کا ذکر سائل نے الزام علیہ نمبر 4 کے دوست شبیر گجر جوکہ لودھراں کیمپسBZUكا انچارج سے کیا جس پر الزام علیہ نمبر 4 نے سائل اور اس کے اہل خانہ کو قتل کرانے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں۔
قبل ازیں مضمون پٹیشن کے حوالے سے بغرض دریافت پٹیشن ہر دو فریقین مختلف تواریخ میں طلب کیا گیا الزام علیہ/رسپانڈنٹ جوکہ بغرض ادائیگی عمرہ سعودی عرب گیا ہوا تھا جس وجہ سے مفصل رپورٹ عدالت آنجناب میں نہ بھجوائی جاسکی مورخہ 09-10-2025کو ہر دو فریقین کو دوبارہ طلب کیا گیا رٹ کنندہ حاضر آیا اور اپنی پٹیشن میں درج موقف کی تائید کی اور ایک ویڈیو بھی پیش کی جس کا ملاحظہ کیا گیا جوکہ واضح نہ ہے علاوہ ازیں مذکورہ نے اپنے موقف میں کسی گواہ کو بھی پیش نہ کیا ہے جبکہ الزام علیہ/رسپانڈنٹ حاضر آیا اور رٹ پٹیشن میں لگائے گئے الزامات کی تدید کی موقف اختیار کیا کہ ایمرسن یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر اپنے فرائض سر انجام دیتا رہا ہوں رٹ کنندہ اعجاز حسین کو یومیہ اجرت پر بطور باورچی(کک)ملازم رکھا جس نے بتلایا کہ وہ روٹی نہ بنا سکتا ہے لہذا اس کی اہلیہ کو بھی ملازمت پر رکھا جائے جو ہر دو کو میں نے ملازمت پر رکھ لیا لیکن اعجاز حسین اور اس کی بیوی بغیر اجازت ہمارے رہائشی کمروں میں آنے جانے لگے اس دوران گھر کی دیگر اشیا اور گروسری کا سامان سرقہ ہون لگا جس پر ROنے سرونٹ کوارٹر کا دروازہ بند کردیا اور اعجاز حسین کو مین گیٹ استعمال کرنے کا مشورہ دیا میری اہلیہ نے رٹ کنندہ کی بیٹیوں کی تعلیم کی سرپرستی کی بعد ازاں مجھے پتہ چلا کہ اعجاز حسین نے مختلف خواتین جوگھر میں آتی تھیں کی تصاویر بنائی جس پر رٹ کنندہ اور اسکی بیوی کو اپنے گھر ملازمت سے فارغ کردیا اسکے بعد وہ کوارٹر کو تالا لگا کر کہیں چلا گیا بعد ازاں سوشل میڈیا اور مقامی روزنامہ کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس نے غلط قسم کے الزامات لگائے ہیں لیکن اس سلسلہ میں اس نے کبھی یونیورسٹی اور چانسلر صاحب کو کوئی شکایت نہیں کی 69 سال کا شخص ہوں اور بطور امام مسجد یونیورسٹی میں خدمت بھی کرتا رہا ہوں میرا شاندار تعلیمی ریکارڈ ہے اب ان الزامات ک بعد میں نے 21 اگست کو اپنی تعیناتی وائس چانسلر سے استعفیٰ دے دیا ہے ڈاکٹر شبیر وغیرہ نے بھی کوئی ویڈیو میر ساتھ شیئر نہیں کی اور جعلی ویڈیو کے ذریعے مجھے دھمکیاں دیکر 20 لاکھ روپے کا مطالبہ کررہے ہیں بلیک میل کررہے ہیں رٹ جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔
علاوہ ازیں مضمون پٹیشن کے حوالہ سے یہ بات سامنے آئی کہ رٹ کنندہ بطور باورچی(کک)الزام علیہ/رسپانڈنٹ(وائس چانسلر ایمرسن یونیورسٹ کے پاس ملازمت کرتا رہا ہے رٹ کنندہ کے ساتھ اس کی اہلیہ کو بھی ملازمت پر رکھا گیا دوران ملازمت رٹ کنندہ اور اس کی اہلیہ رسپانڈنٹ کے رہائشی کمروں میں بغیر اجازت داخل ہونے کی کوشش کرتے تھے اس دوران رسپانڈنٹ کے گھر سے گھریلو اشیاو گروسری کا سامان بھی سرقہ ہونے لگا جس پرROنے سرونٹ کوارٹر کا دروازہ بند کردیا اور رٹ کنندہ کو مین گیٹ استعمال کا کہا گیا رٹ کنندہ کی بیٹیوں کی تعلیمی سرپرستی الزام علیہ کی اہلیہ کرنے لگی رٹ کنندہ نے الزام علیہ کے گھر میں آنے والی خواتین کی کچھ تصویریں بنائی جس پر رٹ کنندہ کو VCہائوس میں دوسرے محکموں میں منتقل کردیا اور رٹ کنندہ اپنی فیملی کے ہمراہ کوارٹر کو تالہ لگا کر چلا گیا بعد ازاں اسی رنجش پر رٹ کنندہ ن سیکس ویڈیو کی بنیاد پر رسپانڈنٹ کو بلیک میل کرنا شروع کردیا لہذاٰ درج بالا حالات کے پیشر نظر و بسلسلہ لا اینڈ آرڈر ڈیوٹی سردست عدالت آنجناب سے آئندہ تاریخ پیشی کی استدعا کی جاتی ہے۔
سردست انٹیرم کمنٹس مرتب ہوکر ارسال خدمت ہیں۔
ایس پی گلگشت ڈویژن ملتان








